نظم!کچھ دن تنہا رہو |
کچھ دن تنہا رہو |
فون بند کرو، |
پھر خود سے پوچھو کہ |
خاموشی کا رنگ کیسا ہے؟ |
دوڑتے رہنے کی شرط اٹھاؤ |
کسی اجنبی بس میں |
بے منزل سفر پر نکلو |
دریچوں سے دیکھو |
کہ دھند میں لپٹی سچائیاں |
کتنی سادہ لگتی ہیں۔ |
اخبار مت پڑھو |
جھوٹی خبروں کو |
کسی ڈائری میں شاعری بنا دو |
اور کہو: |
"ملک خطرے میں ہے" |
پھر قہقہہ لگا کر |
چائے کا گھونٹ لو۔ |
باہر جا کر |
کسی بنچ پہ بیٹھو |
اور آتے جاتے لوگوں کو |
اپنی آنکھوں سے تولنے کی کوشش کرو |
پوچھو خود سے، |
"کیا یہ سب بھی رو رہے ہیں |
یا صرف میں ہوں؟" |
اور اگر |
کسی دن کوئی یاد بہت تنگ کرے |
تو اسے ویلنٹائن کارڈ کی طرح جلا دو |
اور لکھو: |
"محبت ایک پوسٹ کا کیپشن تھی" |
سانول مزاری |
معلومات