دشت میں مجھ پہ اتنی وحشت ہے
قیس جیسی ہی میری حالت ہے
میں کسی یاد میں ہوں یوں گُم صُم
سانس لینا بھی مجھ کو دقت ہے
زندگی ہے اسی کی چھاؤں میں
مجھ کو اک پیڑ سے محبت ہے
آج میں اس سے بات کر آیا
دیکھ لینا جسے عبادت ہے
ملنے آیا مجھے رقیب کے ساتھ
یہ محبت ہے یا کہ نفرت ہے
زخم دے کر جو مسکرایا ہے
کتنی شائستہ اس کی فطرت ہے
اک تمنا تھی ساتھ چلنے کی
اب تو تنہائی ہی رفاقت ہے
آئینے تک بھی اب نہیں جاتا
اپنے چہرے سے ایسی نفرت ہے
دھوپ چہروں پہ چھا گئی سانول
سایۂ عشق بھی مصیبت ہے
غزل ، سانول مزاری

0
1
63
عمدہ

0