شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3488
کیا دن تھے وہ کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
رو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا
قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بے چارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا
اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں
جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
444
کیا مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا
آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا
دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
558
پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا
افسوس میرے مردے پر اتنا نہ کر کہ اب
پچھتاتا یوں ہی سا ہے جو ہوتا تھا ہو چکا
لگتی نہیں پلک سے پلک انتظار میں
آنکھیں اگر یہی ہیں تو بھر نیند سو چکا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1723
ہو آدمی اے چرخ ترکِ گردشِ ایّام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائیدِ دورِ جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکرِ صبح کر گریے کو وردِ شام کر
مستِ جنوں رہ روز و شب شہرہ ہو شہر و دشت میں
مجلس میں اپنی نقلِ خوش زنجیر کا بادام کر

مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن


0
3037
جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تۂ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایّام بہت

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1455
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سرَّ الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
عشق کی شان اکثر ہے ارفع لیکن شانیں عجائب ہیں
گہ ساری ہے دماغ و دل میں گاہے سب سے جدا ہے عشق
کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالوں سے
بو کش ہو کر سیب زقن کا غش نہ کرے تو سزا ہے عشق

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
846
شبِ ہجر میں کم تظلّم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحّم کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا
زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشتِ سرِ خم کیا

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل


0
1906
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3472
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
670
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں
یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


0
2917
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


5577
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
دل و دیں کا پیام ہوتا ہے
اُن سے ہوتا ہے سامنا جس دن
دور ہی سے سلام ہوتا ہے
دل کو روکو کہ چشمِ گریاں کو
ایک ہی خوب کام ہوتا ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2308
کوئی دیتا ہے بہت دور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1408
خوشی تو ہے آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں
سِوا ناج کے جو ہے مطلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل


0
1077
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جاۓ گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1102
بہ نالۂ دلِ دل بستگی فراہم کر
متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
250
اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیٔ فرعون تَوام ہے
جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
340
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
590
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
580