شبِ ہجر میں کم تظلّم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحّم کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا
زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشتِ سرِ خم کیا
جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا
کسو وقت پاتے نہیں گھر اسے
بہت میر نے آپ کو گم کیا
بحر
متقارب مثمن محذوف
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل

0
1906

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں