| دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے | 
| کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے | 
| زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا | 
| بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے | 
| نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا | 
| مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے | 
| تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں | 
| گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے | 
| بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں | 
| مُریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے | 
| تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں | 
| جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے | 
| نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا | 
| تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے | 
| دل و دیدہِ اہلِ عالم میں گھر ہے | 
| تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے | 
| توجہ نے تیری ہمارے مسیحا | 
| توانا کیے ناتواں کیسے کیسے | 
| غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں | 
| ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے | 
| تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں | 
| دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے | 
| کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے | 
| مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے | 
                            بحر
                        
                        | متقارب مثمن سالم فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن | 
اشعار کی تقطیع
 
                        
                        تقطیع دکھائیں
                    
                     
                         
    
معلومات