جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تۂ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایّام بہت
دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی
ہوں تو نا کام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت
رہ گیا دیکھ کے تجھ چشم پہ یہ سطرِ مژہ
ساقیا یوں تو پڑھے تھے میں خطِ جام بہت
پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالب ان زیرِ زمیں میر ہے آرام بہت
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

1453

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں