ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2812
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
987
حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
آئینہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے
تا کجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن؟
چشمِ وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے
عجزِ دیدن ہا بہ ناز و نازِ رفتن ہا بہ چشم
جادۂ صحرائے آگاہی شعاعِ جلوہ ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
370
عرضِ نازِ شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے
دعویٔ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گل
یک جہاں زانو تامل در قفائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بنائے خندہ ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
365
نشہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئے بارِ نغمہ ہے
ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزمِ عیشِ دوست
واں تو میرے نالے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
334
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
711
کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں "
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1068
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
4574
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
کیا تعجب ہے کہ اس کو دیکھ کر آ جائے رحم
واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے
منہ نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
419
زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بستِ مژہ ، سیلیٔ ندامت ہے
نہ جانوں ، کیونکہ مٹے داغِ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے
بہ پیچ و تابِ ہوس ، سلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتۂ سلامت ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
395
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں ، گر آ جائے ہے ، مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مجھ سے
خدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے !
کہ جتنا کھینچتا ہوں ، اور کھنچتا جائے ہے ، مجھ سے
وہ بد خو ، اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے ، مجھ سے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
733
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں ، قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہ کن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


660
یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ "یا رب" ، مجھے
سبحۂ زاہد ہوا ہے ، خندہ زیرِ لب مجھے
ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ در ، رہنِ سخن
تھا طلسمِ قفلِ ابجد ، خانۂ مکتب مجھے
یا رب ! اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے!
رشک ، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
353
دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن میری عریانی مجھے
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فساں
مرحبا میں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے
کیوں نہ ہو بے التفاتی ، اس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پرسش ہائے پنہانی مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
381
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو
تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو
بے تاب ہوں بلا سے، کن آنکھوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
323
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1065
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں*
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
1774
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس* ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


846
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
822
واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو
اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ
آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
249