صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
کہ روئے غنچہ سوئے آشیاں پھر آ جائے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
308
نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
275
زندانِ تحمل ہیں مہمانِ تغافل ہیں
بے فائدہ یاروں کو فرقِ غم و شادی ہے

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


0
252
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لیے اسدؔ
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
300
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
387
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہِ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1152
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری سُرمہ سا نکلتی ہے
فشارِ تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں‌ جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
331
جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
کس کا سراغِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے
ہے ذرہ ذرہ تنگیٔ جا سے غبارِ شوق
گر دام یہ ہے وسعتِ صحرا شکار ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
765
ہجومِ نالہ ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے
تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطفِ بد خویاں
نگاہِ بے حجابِ ناز تیغِ تیزِ عریاں ہے
ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو بدتر از چاکِ گریباں ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
434
سیاہی جیسے گر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر
مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہائے ہجراں کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
572
ہوں میں بھی تماشائیٔ نیرنگِ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
273
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


1673
آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے
نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشمِ مست کا
شیشے میں نبضِ پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
430
لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت کشتۂ لعلِ بتاں کا خواب سنگیں ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
311
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
موجِ شراب یک مژۂ خواب ناک ہے
جز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے
جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
395
کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
بے تکلف اے شرارِ جستہ! کیا ہو جائیے
بیضہ آسا ننگِ بال و پر ہے یہ کنجِ قفس
از سرِ نو زندگی ہو، گر رہا ہو جائیے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
280
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں ، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
2752
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہ گزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں‌ نمود نہ ہو لالہ زار کی
بھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستاں کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
341
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہرِ تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اگاتا ہے مجھے
مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
449
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیٔ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلفِ خم بہ خم کیا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
815