Circle Image

Salman Haidar

@salmankazmi

دیکھا ہے عجب ہم نے شبِ غم کا اثر بھی
بیتاب اگر دل تھا تو حیراں تھی نظر بھی
وہ بھی ہیں اثر گیر مری شورشِ غم سے
عالم جو اِدھر ہے وہی عالم ہے اُدھر بھی
اے طالبِ نظّارہ یہ سوچا کبھی تو نے
جلووں کے لئے چاہیے کچھ تابِ نظر بھی

4
32
یہ گھٹاؤں کا تقاضہ ہے کہ ساقی مَے لا
آج میخاروں کا بھی دستِ طلب ہے پھیلا
بات قسمت کی ہے شکوہ بھی کریں تو کس سے
ہم کو ہمدرد ملے ایسے کہ دل ہے مَیلا
ساغَرِ مَے جو نہیں ہے نہ سہی زہر سہی
ساقیا دل مرا مضطر ہے کوئی بھی شَے لا

0
5
تنہائیوں میں جب وہ لبِ بام آئے ہیں
شرمندگی سے شمس و قمر جھلملائے ہیں
لاکھوں فریب راہِ محبت میں کھائے ہیں
پھر بھی ہر ایک گام پہ ہم مسکرائے ہیں
حالاتِ غم‌ سے کر دیا دنیا کو با خبر
نوکِ مژہ پہ جب بھی مرے اشک آئے ہیں

0
5
عشق کا نزدیکِ منزل کارواں ہونے کو ہے
یعنی میری ختم ساری داستاں ہونے کو ہے
دل دھڑک اٹھا ہے میرا جانے کس کی یاد میں
سن لیا ہے جشنِ یادِ رفتگاں ہونے کو ہے
تیرا انکارِ شبِ وعدہ اے ہمدم! بالیقیں
میری خاطر باعثِ دردِ نہاں ہونے کو ہے

0
17
ہر ایک باغبان عبث فکر مند ہے
بجلی کو صرف میرا نشیمن پسند ہے
میرے سکوت کا نہیں سمجھے وہ راز کیا
کیوں حوصلہ جفاؤں کا انکی بلند ہے
میں نے بھی فکر کی ہے کب اظہارِ درد کی
کیا ان کو ہو خبر کہ کوئی دردمند ہے

0
14
درِ خیمہ سے جب جب بھی علی اکبر نکلتے ہیں
یہی محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر نکلتے ہیں
سفر میں کس طرح ان لوگوں پر آئے کوئی آفت
ہمیشہ گھر سے جو نادِ علی پڑھ کر نکلتے ہیں
خیانت کار مائیں تربیت کرتی ہیں جن کی بھی
جواں ہوکر زمانے میں وہی خونگر نکلتے ہیں

0
48
میں کیوں کہوں کہ کسی چہرگی سے عشق کرو
جو بات کا ہو دھنی بس اسی سے عشق کرو
جہالتوں کے اندھیرے سے توڑ دو رشتہ
علوم و فن کی فقط روشنی سے عشق کرو
کسی غریب کی غربت پہ مت ہنسو لیکن
رُلا دے ظلم کو جو اس ہنسی سے عشق کرو

0
62
مجھ کو کیا یاد ہے کیا بھول گیا یاد نہیں
میں مرض بھول گیا اور دوا یاد نہیں
عشق کے طوق و سلاسل میں ہوں جکڑا لیکن
میں نے کس جرم کی  پائی ہے سزا یاد نہیں
خار بچھوائے جن  احباب نےراہوں میں مری
میں نے ان سے  بھی کبھی کی ہو دغا یاد نہیں

38
ہے نظر یہ عاقل و با فہم لوگوں کا یہی
جاہل و امی کبھی معراج پا سکتا نہیں
ہے بندھا ماتھے پہ رومالِ جنابِ فاطمہ
حر کے جیسا اب کوئی بھی تاج پا سکتا نہیں

52
خون میں اسکے یقینًا ہے کوئی خامی ضرور
جو غمِ شبیر میں رونے کا منکر ہو گیا
جو نبی کو دیکھ لے گر وہ صحابی ہے تو پھر
پالنے والا نبی کو کیسے کافر ہو گیا

52
محبت دل میں ہو اہلِ وطن کی یہ بھی لازم ہے
فقط عشقِ وطن کو ہم وفاداری نہیں کہتے

64
لکھ رہا ہوں میں قلم سے جو ثنائے زینب
میرے کشکول میں پیہم ہے عطائے زینب
کیا اٹھائیں گے بھلا اس کو زمانے والے
تو جسے اپنی نگاہوں سے گرائے زینب
خون میں اس کے یقیناً ہے طہارت کی کمی
مجلسِ شاہ میں جو شخص نہ آئے زینب

55
جون کا سر رکھ رہے ہیں اپنے زانو پر حسین
آسماں تک جا رہی ہے کربلا کی روشنی

43
کسی غریب کی غربت پہ مت ہنسو لیکن
رلا دے ظلم کو جو اس ہنسی سے عشق کرو

53