| درِ خیمہ سے جب جب بھی علی اکبر نکلتے ہیں |
| یہی محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر نکلتے ہیں |
| سفر میں کس طرح ان لوگوں پر آئے کوئی آفت |
| ہمیشہ گھر سے جو نادِ علی پڑھ کر نکلتے ہیں |
| خیانت کار مائیں تربیت کرتی ہیں جن کی بھی |
| جواں ہوکر زمانے میں وہی خونگر نکلتے ہیں |
| فقط سرور کے غمخواروں کو ہے یہ مرتبہ حاصل |
| کہ شعلوں پر علم عباس کا لیکر نکلتے ہیں |
| نکل کر ناریوں کی صف سے یوں حرِ جری آئے |
| کی جیسے کوئلے کی کان سے گوہر نکلتے ہیں |
| جو پلتے ہیں شہ والا کی مجلس کے تبرک پر |
| وہ اپنے دور سے اک مالکِ اشتر نکلتے ہیں |
| ستارہ فخر سے آکر درِ حیدر پہ کہتا ہے |
| اسی در سے تو فطرس کے بھی بال و پر نکلتے ہیں |
| خدا نے سنگساری کی ہے تجھ پر اس لئے مفتی |
| ترے دل میں علی کے بغض کے کنکر نکلتے ہیں |
| جنابِ فاطمہ مصداق ہیں اُن سب کی جتنے بھی |
| لغت میں اس جہاں کی معنیٔ کوثر نکلتے ہیں |
| علی کے بغض کے بوئے گئے ہیں جن دلوں میں بیج |
| انھیں جب غور سے دیکھو تو وہ بنجر نکلتے ہیں |
| چلے آتے ہیں یوسف بھی زیارت کے لئے پیہم |
| شہِ کرب و بلا کےگھر سے جب اکبر نکلتے ہیں |
| انھیں لوگوں کا رشتہ قاتلِ زہرا سے ہے سلمؔؔان |
| کہ جنکی آستینوں کے تلے خنجر نکلتے ہیں |
معلومات