تنہائیوں میں جب وہ لبِ بام آئے ہیں |
شرمندگی سے شمس و قمر جھلملائے ہیں |
لاکھوں فریب راہِ محبت میں کھائے ہیں |
پھر بھی ہر ایک گام پہ ہم مسکرائے ہیں |
حالاتِ غم سے کر دیا دنیا کو با خبر |
نوکِ مژہ پہ جب بھی مرے اشک آئے ہیں |
جن کو خزاں بھی دیکھ کے حیران رہ گئ |
فصلِ بہار تو نے عجب گُل کھلائے ہیں |
آغوش میں قضا نے انھیں بڑھ کے لے لیا |
صحنِ چمن میں پھول اگر مسکرائے ہیں |
اکثر کٹی ہیں ہجر کی راتیں کچھ اس طرح |
وہ یاد آئے ہیں تو بہت یاد آئے ہیں |
ممکن نہیں کہ آپ تصور بھی کر سکیں |
راہِ وفا میں ہم نے جو صدمے اٹھائے ہیں |
عزمِ جواں نے حوصلۂ ضبطِ غم دیا |
بادل غموں کے جب بھی مرے دل پہ چھائے ہیں |
حیرت سے مجھکو اہلِ جہاں دیکھتے ہیں آج |
میں نے وہ نقش راہِ وفا میں بنائے ہیں |
سلماؔؔؔن انتظار کی لذت نہ اُن سے پوچھ |
جو شامہی سے شمعِ تمنا جلائے ہیں |
معلومات