لکھ رہا ہوں میں قلم سے جو ثنائے زینب
میرے کشکول میں پیہم ہے عطائے زینب
کیا اٹھائیں گے بھلا اس کو زمانے والے
تو جسے اپنی نگاہوں سے گرائے زینب
خون میں اس کے یقیناً ہے طہارت کی کمی
مجلسِ شاہ میں جو شخص نہ آئے زینب
نسلِ احمد نہ بقا پائے اگر خیمہ سے
لاد کر پشت پہ عابد کو نہ لائے زینب
اس کو کیا ہوگی بھلا معرفتِ کرب وبلا
باعمل بن کے جو مجلس میں نہ آئے زینب
مدحِ زینب میں فرزدق بھی یہ کہہ اٹھا ہے
ہو نہیں سکتا ادا حق ثنائے زینب
جو نمازیں نہ پڑھے اور کرے ذکر حسین
مل نہیں سکتی کبھی اس کو دعائے زینب
ہر نفس بس یہی سلماؔؔن کے دل کی ہے دعا
ایک دن یہ بھی ترے روضہ پہ جائے زینب

55