دیکھا ہے عجب ہم نے شبِ غم کا اثر بھی
بیتاب اگر دل تھا تو حیراں تھی نظر بھی
وہ بھی ہیں اثر گیر مری شورشِ غم سے
عالم جو اِدھر ہے وہی عالم ہے اُدھر بھی
اے طالبِ نظّارہ یہ سوچا کبھی تو نے
جلووں کے لئے چاہیے کچھ تابِ نظر بھی
آئینِ ادب تجھکو بلاتا ہے بہ ہر گام
اے شاعرِ خوش فہم ذرا دیکھ ادھر بھی
تاروں کی چمک ہو کہ وہ کلیوں کا تبسم
ہر حسن میں شامل ہے مرا حسنِ نظر بھی
بازارِ وفا ہی میں نہیں دل مرا ممتاز
اس آئنے پر ہے نِگۂ آئنہ گر بھی
اربابِ چمن رنگِ چمن خوب ہے لیکن
آیا ہے بہت کام مرا خونِ جگر بھی
اب دیکھئے کیا ہو چمنِ شوق کا انجام
دامن میں محبت کے ہے شبنم بھی شرر بھی
سلمان شبِ غم بھی نہیں حشر سے کچھ کم
مانا کہ قیامت ہے شبِ غم کی سحر بھی

4
32
دل جیت لیا آپ نے

شکریہ محترم
التماس دعا

0
جناب بڑی استادانہ غزل کہی ہے - کیا بات ہے

ما شااللہ، اعلیٰ