| دیکھا ہے عجب ہم نے شبِ غم کا اثر بھی |
| بیتاب اگر دل تھا تو حیراں تھی نظر بھی |
| وہ بھی ہیں اثر گیر مری شورشِ غم سے |
| عالم جو اِدھر ہے وہی عالم ہے اُدھر بھی |
| اے طالبِ نظّارہ یہ سوچا کبھی تو نے |
| جلووں کے لئے چاہیے کچھ تابِ نظر بھی |
| آئینِ ادب تجھکو بلاتا ہے بہ ہر گام |
| اے شاعرِ خوش فہم ذرا دیکھ ادھر بھی |
| تاروں کی چمک ہو کہ وہ کلیوں کا تبسم |
| ہر حسن میں شامل ہے مرا حسنِ نظر بھی |
| بازارِ وفا ہی میں نہیں دل مرا ممتاز |
| اس آئنے پر ہے نِگۂ آئنہ گر بھی |
| اربابِ چمن رنگِ چمن خوب ہے لیکن |
| آیا ہے بہت کام مرا خونِ جگر بھی |
| اب دیکھئے کیا ہو چمنِ شوق کا انجام |
| دامن میں محبت کے ہے شبنم بھی شرر بھی |
| سلمان شبِ غم بھی نہیں حشر سے کچھ کم |
| مانا کہ قیامت ہے شبِ غم کی سحر بھی |
معلومات