یہ گھٹاؤں کا تقاضہ ہے کہ ساقی مَے لا
آج میخاروں کا بھی دستِ طلب ہے پھیلا
بات قسمت کی ہے شکوہ بھی کریں تو کس سے
ہم کو ہمدرد ملے ایسے کہ دل ہے مَیلا
ساغَرِ مَے جو نہیں ہے نہ سہی زہر سہی
ساقیا دل مرا مضطر ہے کوئی بھی شَے لا
کوئی ناکام سدھارا ہے جہاں سے شاید
عالمِ عشق میں جو آج ہے یہ واویلا
بندگی میں تجھے لذت جو میسر نہ ہوئی
تو بھی میلا ہے ترا دل بھی ہے زاہد میلا
عشق کی راہ بھی آسان نہیں ہے سلؔمان
رہا ناکام جو مجنوں تو پریشاں لیلا

0
5