ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے !

0
283
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا
غلطاں بہ سبو تمام خونِ فن ہا
ٹھٹھری ہوئی ساغر میں نظر آتی ہے
صہبا رضیَ اللہ تعالیٰ عنہا

6
428
غنچے تری زندگی پہ دل ہلتا ہے
بس ایک تبسم کے لئے کھلتا ہے
غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے

681
ہم، حُسن پرستی کے قرینوں کے لیے
ہو جاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے

0
512
لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
تُو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی
جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ

341
سبطینِ نبی یعنی حَسن اور حُسین
زہرا و علی کے دونوں نورُ العین
عینک ہے تماشائے دو عالم کے لئے
اے ذوق لگا آنکھوں سے ان کی نعلین

0
307
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
476
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

1308
اشعار کو زر تار قبا دیتا ہوں
افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں
الفاظ کو بخشتا ہوں شکلِ اصنام
آواز کو آنکھوں سے دکھا دیتا ہوں

0
363
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

5
8608
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
ہر آن کا وَسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدّتِ ہَوَس پر مَبنی
تا مَرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے

0
347
انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے
ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے
کل نام ترا لیا جو بُوئے گُل نے
تا دیر اُس آواز کو دیکھا میں نے

0
337
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو

0
222
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا ہے کلیجا تم نے

0
220
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے

0
175
شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا
رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُرنَم تھا

0
278
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سِوا

0
318
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے

0
370
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال

0
537
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے

0
271
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بیتابئ رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی

0
445
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟

0
379
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں !

0
248
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم

0
239
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگر نگویم مشکل

0
606
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال

186
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال !

194
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ *
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ

327
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا

0
532