تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے !
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
0
278
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا
غلطاں بہ سبو تمام خونِ فن ہا
ٹھٹھری ہوئی ساغر میں نظر آتی ہے
صہبا رضیَ اللہ تعالیٰ عنہا
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا
4
6
425
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
غنچے تری زندگی پہ دل ہلتا ہے
بس ایک تبسم کے لئے کھلتا ہے
غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے
غنچہ
1
659
29 جولائی 2020
رباعی
صادقین نقوی
ہم، حُسن پرستی کے قرینوں کے لیے
ہو جاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے
ہم، حُسن پرستی کے قرینوں کے لیے
0
501
29 جولائی 2020
رباعی
احمد فراز
لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
تُو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی
جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
1
339
29 جولائی 2020
رباعی
ابراہیم ذوق
سبطینِ نبی یعنی حَسن اور حُسین
زہرا و علی کے دونوں نورُ العین
عینک ہے تماشائے دو عالم کے لئے
اے ذوق لگا آنکھوں سے ان کی نعلین
سبطینِ نبی یعنی حَسن اور حُسین
0
305
29 جولائی 2020
قطعہ
مرزا غالب
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
446
29 جولائی 2020
رباعی
میر انیس
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
1
1279
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
اشعار کو زر تار قبا دیتا ہوں
افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں
الفاظ کو بخشتا ہوں شکلِ اصنام
آواز کو آنکھوں سے دکھا دیتا ہوں
اشعار کو زر تار قبا دیتا ہوں
0
351
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
15
5
8555
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
ہر آن کا وَسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدّتِ ہَوَس پر مَبنی
تا مَرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
0
343
29 جولائی 2020
رباعی
جوش ملیح آبادی
انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے
ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے
کل نام ترا لیا جو بُوئے گُل نے
تا دیر اُس آواز کو دیکھا میں نے
انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے
0
331
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
0
218
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا ہے کلیجا تم نے
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
0
219
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
0
173
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا
رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُرنَم تھا
شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
0
273
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سِوا
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
0
313
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
0
365
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
0
532
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
0
267
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بیتابئ رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
0
439
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
0
376
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں !
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
0
245
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
0
234
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگر نگویم مشکل
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
0
598
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
1
183
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال !
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
2
189
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ *
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
2
317
29 جولائی 2020
رباعی
مرزا غالب
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
0
530
معلومات