سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید* کہ مرنے کی آس ہے
لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
798
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
708
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے
میں بھی جلے ہؤوں میں ہوں داغِ نا تمامی

مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن


908
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
798
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
753
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے
غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
378
ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا
یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے
رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
765
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1558
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
335
نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جاۓ گی جواب کے ساتھ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
375
ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھایے
دشوارئ رہ و ستمِ ہم رہاں نہ پوچھ

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
524
از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو" شش جہت" سے مقابل ہے آئینہ

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
443
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک‌ ہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز"
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
566
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1160
فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
نہیں رفتارِ عمرِ تیز رو پابندِ مطلب ہا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
441
ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


394
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
803
شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتۂ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا
مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
460
تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
805
لبِ خشک در تشنگی مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا
ہمہ نا امیدی، ہمہ بد گمانی
میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


0
773