Circle Image

Harsimran Singh

@hsingh2711

اے میری جان ! اے مری غمخوارِ خوش خصال
اے چارہ سازِ خاص و مسیحائے بے مثال
اے شمعِ بزمِ ناز و چراغِ شبِ وصال
اے قحط زارِ دل کے لیے ابرِ برشگال
اک سادہ دل جواں تری الفت میں کھو گیا
سمرن اسیرِ کاکلِ شب رنگ ہو گیا

0
71
دل نا امید ہی نہیں ، ناکام بھی تو ہے
غم کی یہ شام حشر کا ہنگام بھی تو ہے
بے چینیوں کے ساتھ کچھ آرام بھی تو ہے
دورِ خزاں میں یادِ گل اندام بھی تو ہے
نازِ بہار رونقِ گلشن کے ساتھ ساتھ
حسن و جمالِ عارضِ گلفام بھی تو ہے

0
3
59
خنجر نگاہِ ناز ہے نشتر حیائے یار
لے کر رہے گی جان ہماری ادائے یار
یوں آمدِ قضا پہ دھڑکنے لگا ہے دل
جیسے کہیں سے آئی ہو اِس کو صدائے یار
لکّھا ہے عاشقوں کے مقدر میں اور کیا
بیدادِ عشق ، جورِ فلک اور جفائے یار

1
57
خزاں کی رت میں جب مجھ کو بہاروں کی نوید آئی
مرے غم خانۂ دل میں بھی آخر کچھ امید آئی
تصور میں وہ ہم سے کرنے جب گفت و شنید آئی
مرے ہر حرفِ الفت پر حیا اس کو شدید آئی
نہ جانے کیسی لڑکی تھی جو کل شب خواب میں میرے
ڈری ، سہمی ہوئی شہرِ ستم کی کرنے دید آئی

0
57
اُس صنم ، اُس شعلہ رو ، اُس گل بدن کی روشنی
آئی ہے ظلمت کدے میں اک کرن کی روشنی
تیرے آنے سے ہماری بزمِ عشرت سج گئی
ہو گئی دو چند شمعِ انجمن کی روشنی
خوں رلاتا ہے ہمیں شب بھر یہ ظالم ماہتاب
چاندنی میں ہے نگارِ دل شکن کی روشنی

2
111
بھڑک اٹھے شعلۂ محبت ، شرر فشاں ہو شباب تیرا
پئے قرارِ جگر فگاراں کبھی تو اٹّھے حجاب تیرا
نصیبِ اعدا ہوا ہے جاناں اب التفات و کرم تمہارا
ہمارے حصے میں رہ گیا ہے ، یہ قہر تیرا ، عتاب تیرا
مرے صنم ایک بار اپنی نگاہ کر سوئے سینہ چاکاں
بہت گراں ہے دل و نظر پر یہ عمر بھر کا حجاب تیرا

0
3
126
خوابوں کے ، ستاروں کے کاشانے کہوں گا میں
اِن آنکھوں کو میری جاں ، مے خانے کہوں گا میں
اُن اجڑے مکانوں کو ، دردوں کے ٹھکانوں کو
دل جن کو کہو گے تم، ویرانے کہوں گا میں
اُن بیتے زمانوں کو ، اُن کہنہ جہانوں کو
ادوار کہو گے تم ، افسانے کہوں گا میں

0
114
ہمارے لب پہ نہ آئی کبھی شکایتِ غم
عزیز تر ہمیں بزمِ جہاں سے خلوتِ غم
ترے بچھڑنے سے پہلے بھی میں اداس ہی تھا
مگر خبر نہ تھی مجھ کو کہ کیا ہے شدتِ غم
کِیا نہ پند و نصیحت نے کچھ اثر مجھ پر
حیات اپنی بنا ڈالی ہے حکایتِ غم

3
274
لطفِ شباب و تابِ رخ ، سب لے اُڑی دیوانگی
بدلے میں مجھ کو دے گئی ہے بے کسی دیوانگی
سب کو ہوئیں درگاہِ یزداں سے عطا کچھ نعمتیں
میرے مقدر میں لکھی وحشت بھری دیوانگی
مجھ سے کوئی شکوہ ہو کیوں، اِس میں مری ہے کیا خطا ؟
کس کو رہا ہے ہوش جب سر پر چڑھی دیوانگی ؟

117