| خنجر نگاہِ ناز ہے نشتر حیائے یار |
| لے کر رہے گی جان ہماری ادائے یار |
| یوں آمدِ قضا پہ دھڑکنے لگا ہے دل |
| جیسے کہیں سے آئی ہو اِس کو صدائے یار |
| لکّھا ہے عاشقوں کے مقدر میں اور کیا |
| بیدادِ عشق ، جورِ فلک اور جفائے یار |
| روئیں عزیز دوست کی رخصت پہ کیوں نہ ہم |
| دنیا میں اور کون تھا اپنا سوائے یار |
| اُس نے رکھا حساب مرے ہر گناہ کا |
| گو مجھ کو جلد بھول گئی ہر خطائے یار |
| دیر و حرم سے بڑھ کے مقدس ہے اُس کی خاک |
| جس رہ گزر میں آئے نظر نقشِ پائے یار |
| گر وہ خدا نہیں تو فرشتہ ضرور ہے |
| کرتی ہے بزمِ دل کو منور ضیائے یار |
| سمرن ہمیں سبھی کہیں کافر کہ ہر گھڑی |
| کرتے ہیں ہم ستائش و مدح و ثنائے یار |
معلومات