خنجر نگاہِ ناز ہے نشتر حیائے یار
لے کر رہے گی جان ہماری ادائے یار
یوں آمدِ قضا پہ دھڑکنے لگا ہے دل
جیسے کہیں سے آئی ہو اِس کو صدائے یار
لکّھا ہے عاشقوں کے مقدر میں اور کیا
بیدادِ عشق ، جورِ فلک اور جفائے یار
روئیں عزیز دوست کی رخصت پہ کیوں نہ ہم
دنیا میں اور کون تھا اپنا سوائے یار
اُس نے رکھا حساب مرے ہر گناہ کا
گو مجھ کو جلد بھول گئی ہر خطائے یار
دیر و حرم سے بڑھ کے مقدس ہے اُس کی خاک
جس رہ گزر میں آئے نظر نقشِ پائے یار
گر وہ خدا نہیں تو فرشتہ ضرور ہے
کرتی ہے بزمِ دل کو منور ضیائے یار
سمرن ہمیں سبھی کہیں کافر کہ ہر گھڑی
کرتے ہیں ہم ستائش و مدح و ثنائے یار

1
57
واہ۔۔۔کیا کہنے جناب! بہت عمدہ غزل۔۔۔خوبصورت اندازِ بیان
❤❤❤❤❤