لطفِ شباب و تابِ رخ ، سب لے اُڑی دیوانگی
بدلے میں مجھ کو دے گئی ہے بے کسی دیوانگی
سب کو ہوئیں درگاہِ یزداں سے عطا کچھ نعمتیں
میرے مقدر میں لکھی وحشت بھری دیوانگی
مجھ سے کوئی شکوہ ہو کیوں، اِس میں مری ہے کیا خطا ؟
کس کو رہا ہے ہوش جب سر پر چڑھی دیوانگی ؟
میری فسردہ زندگی کا کچھ نہیں حاصل بجز
آوارگی ، بے چارگی ، آشفتگی ، دیوانگی
وہ آرزو، وہ یاد تیری ، وہ خلش باقی نہیں
لیکن سلامت ہے صنم اب تک مری دیوانگی
راہِ فنا میں ہر قدم ، ہر گام پر عشاق کی
کرتی ہے منزل تک بخوبی رہبری دیوانگی
دم لے گی سمرن کو ملا کر خاکِ کوئے یار میں
انجام تک لانے سے پہلے کب تھمی دیوانگی ؟

117