اُس صنم ، اُس شعلہ رو ، اُس گل بدن کی روشنی
آئی ہے ظلمت کدے میں اک کرن کی روشنی
تیرے آنے سے ہماری بزمِ عشرت سج گئی
ہو گئی دو چند شمعِ انجمن کی روشنی
خوں رلاتا ہے ہمیں شب بھر یہ ظالم ماہتاب
چاندنی میں ہے نگارِ دل شکن کی روشنی
چاہیے ہے زیست کی تاریک راہوں میں مرے
دیدہ و دل کو کسی عہدِ کہن کی روشنی
کشورِ نا آشنا کی تیرگی میں دم بدم
یاد آتی ہے ہمیں صبحِ وطن کی روشنی
سچ کہوں سمرن تو وہ بے سوز اور بے نور ہیں
جن سخن میں ہو نہ اُس جانِ سخن کی روشنی

2
110
سمرن آپکا کلا م اچھا ہی ہوتا ہے ماشااللہ - زبان و بیان کی غلطیوں سے مبرا۔
مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مجھے پسند بھی آۓ۔ ٰیہ غزل یقینا اچھی ہے مگر مجھے اتنی خاص نہیں لگی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟

سمرن صاحب میرا یہ میسج صرف آپ کے لیۓ تھا نجانے کیسے سب کے لیۓ پوسٹ ہوگیا۔
معذرت خواہ ہوں ۔
مگر جب یہ ہو ہی گیا ہے تو میں مزید سب کے لیے لکھتا چلوں کہ سمرن صاحب کا کلام اس سائٹ کے چند معیاری کلاموں میں سے ایک ہوتا ہے- اردو انکی زبان بھی نہیں ہے مگر آپ عبور دیکھیے-
الفاظ کی نشست برخاست دیکھیے اور ان سے سبق سیکھئے

یہ غزل بھی زبان و بیان کے اعتبار سے اس سایٹ کی معیاری غزل ہے