ہمارے لب پہ نہ آئی کبھی شکایتِ غم |
عزیز تر ہمیں بزمِ جہاں سے خلوتِ غم |
ترے بچھڑنے سے پہلے بھی میں اداس ہی تھا |
مگر خبر نہ تھی مجھ کو کہ کیا ہے شدتِ غم |
کِیا نہ پند و نصیحت نے کچھ اثر مجھ پر |
حیات اپنی بنا ڈالی ہے حکایتِ غم |
سناؤ مت مری جاں نغمۂ نشاط ہمیں |
خوش آ گئی ہے ترے عاشقوں کو صحبتِ غم |
طلوعِ صبح پہ وہ شادماں نہیں ہوتے |
تمام رات میسر ہو جن کو لذتِ غم |
مری حیاتِ حزیں کا یہی ہے سرمایہ |
متاعِ درد ، زرِ رنج اور دولتِ غم |
ہر ایک صاحبِ علم و ہنر نے قصد کِیا |
بیاں کسی سے مگر ہو سکی نہ وسعتِ غم |
فضا میں خوشبو ، گلوں پر نکھار ہے سمرن |
تمہارے چہرے پہ کیوں اب تلک ہے رنگتِ غم ؟ |
معلومات