ہمارے لب پہ نہ آئی کبھی شکایتِ غم
عزیز تر ہمیں بزمِ جہاں سے خلوتِ غم
ترے بچھڑنے سے پہلے بھی میں اداس ہی تھا
مگر خبر نہ تھی مجھ کو کہ کیا ہے شدتِ غم
کِیا نہ پند و نصیحت نے کچھ اثر مجھ پر
حیات اپنی بنا ڈالی ہے حکایتِ غم
سناؤ مت مری جاں نغمۂ نشاط ہمیں
خوش آ گئی ہے ترے عاشقوں کو صحبتِ غم
طلوعِ صبح پہ وہ شادماں نہیں ہوتے
تمام رات میسر ہو جن کو لذتِ غم
مری حیاتِ حزیں کا یہی ہے سرمایہ
متاعِ درد ، زرِ رنج اور دولتِ غم
ہر ایک صاحبِ علم و ہنر نے قصد کِیا
بیاں کسی سے مگر ہو سکی نہ وسعتِ غم
فضا میں خوشبو ، گلوں پر نکھار ہے سمرن
تمہارے چہرے پہ کیوں اب تلک ہے رنگتِ غم ؟

3
274
سمرن - بہت عمدہ - بہت اچھی غزل ہے- زبان و بیان بھی صاف ہے کوئ عیب ِ سخن بھی نہیں۔
خیالات بھی اچھے ہیں - ردیف بھی آپ نے اچھی نبھائ ہے- مبارکباد قبول کیجیے

محترم میں نے ایک ترکیب بند لگایا تھا وہ دیکھیے ذرا

0
عمدہ غزل وااہ!