بھڑک اٹھے شعلۂ محبت ، شرر فشاں ہو شباب تیرا |
پئے قرارِ جگر فگاراں کبھی تو اٹّھے حجاب تیرا |
نصیبِ اعدا ہوا ہے جاناں اب التفات و کرم تمہارا |
ہمارے حصے میں رہ گیا ہے ، یہ قہر تیرا ، عتاب تیرا |
مرے صنم ایک بار اپنی نگاہ کر سوئے سینہ چاکاں |
بہت گراں ہے دل و نظر پر یہ عمر بھر کا حجاب تیرا |
تو دیکھ کے آئنے میں خود ہی جبین و چشم و رخِ حسیں کو |
بتا کریں گے مقابلہ کیوں کر انجم و ماہتاب تیرا ؟ |
خزاں کی بوجھل فضا کے ظلم و ستم نے مرجھا دیا ہے اس کو |
وفورِ جوشِ بہارِ نو نے کِیا تھا چہرہ گلاب تیرا |
نہیں نہیں زندگی نہیں یہ بلا ہے آفت ہے بارِ غم ہے |
کہ اک عذابِ الیم ہے اے خدا جہانِ خراب تیرا |
معلومات