بھڑک اٹھے شعلۂ محبت ، شرر فشاں ہو شباب تیرا
پئے قرارِ جگر فگاراں کبھی تو اٹّھے حجاب تیرا
نصیبِ اعدا ہوا ہے جاناں اب التفات و کرم تمہارا
ہمارے حصے میں رہ گیا ہے ، یہ قہر تیرا ، عتاب تیرا
مرے صنم ایک بار اپنی نگاہ کر سوئے سینہ چاکاں
بہت گراں ہے دل و نظر پر یہ عمر بھر کا حجاب تیرا
تو دیکھ کے آئنے میں خود ہی جبین و چشم و رخِ حسیں کو
بتا کریں گے مقابلہ کیوں کر انجم و ماہتاب تیرا ؟
خزاں کی بوجھل فضا کے ظلم و ستم نے مرجھا دیا ہے اس کو
وفورِ جوشِ بہارِ نو نے کِیا تھا چہرہ گلاب تیرا
نہیں نہیں زندگی نہیں یہ بلا ہے آفت ہے بارِ غم ہے
کہ اک عذابِ الیم ہے اے خدا جہانِ خراب تیرا

0
3
126
ماشااللہ

0
شکریہ ارشد صاحب

0
ہمیں تو ہر دم خیال تیرا، گمان تیرا ہے خواب تیرا
خدا ہی جانے کب آئے قاصد، خدا ہی جانے جواب تیرا
جے ڈی تنہاؔ