| خزاں کی رت میں جب مجھ کو بہاروں کی نوید آئی |
| مرے غم خانۂ دل میں بھی آخر کچھ امید آئی |
| تصور میں وہ ہم سے کرنے جب گفت و شنید آئی |
| مرے ہر حرفِ الفت پر حیا اس کو شدید آئی |
| نہ جانے کیسی لڑکی تھی جو کل شب خواب میں میرے |
| ڈری ، سہمی ہوئی شہرِ ستم کی کرنے دید آئی |
| نسیمِ صبح کو پھر سے متاعِ رنگ و خوشبو دے |
| تری صحبت سے اے جاناں یہ ہونے مستفید آئی |
| فریب و مکر و عیاری کے اک بازارِ روشن سے |
| میں تو غافل رہا پر خلق کتنا کچھ خرید آئی |
| ملا کیا ہے سواۓ رنج و غم مجھ کو یہاں سمرن |
| نیا کیا ہے جو اب کی بار بھی غمناک عید آئی ؟ |
معلومات