جانے ہیں کب سے میز پہ صفحات منتشر |
الفت نے کر دیے ہیں خیالات منتشر |
گر حالِ دل بیان کے قابل ہوا مرا |
کب ہونگے پھر یہ میرے جوابات منتشر |
اک سمت چل رہا تھا، تمہیں چاہنے سے قبل |
حرکت کی پھر ہوئی ہے مساوات منتشر |
جنت پہ دشتِ عشق کا مجھ کو گماں ہوا |
دیکھے وہاں جو ہر سو خرابات منتشر |
خالق ہے ایک ،خلق سے وحدت چھلکتی ہے |
ہو جائیں ورنہ ارض و سماوات منتشر |
جلنے سے عشق اور نمودار ہو گیا |
ظالم نے میرے کر دیئے ذرات منتشر |
مرکوز ہو سکے گی خیالات کی یہ رو |
ہو جب نہ سب کی غایتِ غایات منتشر |
اس زندگی پہ ہوتا ہے اک خواب کا گماں |
ہر سو دھواں دھواں، مرے دن رات منتشر |
معلومات