جانے ہیں کب سے میز پہ صفحات منتشر
الفت نے کر دیے ہیں خیالات منتشر
گر حالِ دل بیان کے قابل ہوا مرا
کب ہونگے پھر یہ میرے جوابات منتشر
اک سمت چل رہا تھا، تمہیں چاہنے سے قبل
حرکت کی پھر ہوئی ہے مساوات منتشر
جنت پہ دشتِ عشق کا مجھ کو گماں ہوا
دیکھے وہاں جو ہر سو خرابات منتشر
خالق ہے ایک ،خلق سے وحدت چھلکتی ہے
ہو جائیں ورنہ ارض و سماوات منتشر
جلنے سے عشق اور نمودار ہو گیا
ظالم نے میرے کر دیئے ذرات منتشر
مرکوز ہو سکے گی خیالات کی یہ رو
ہو جب نہ سب کی غایتِ غایات منتشر
اس زندگی پہ ہوتا ہے اک خواب کا گماں
ہر سو دھواں دھواں، مرے دن رات منتشر

6
208
بہت خوب

زبردست

اعلیٰ

بہت خوب !

بہت خوب !

اس زندگی پہ ہوتا ہے اک خواب کا گماں
ہر سو دھواں دھواں، مرے دن رات منتشر
کمال کا شعر ہے