Circle Image

Sagar Haider Abbasi

@1987

شعری مجموعہ : 1- ماں، 2- میرے انمول دُکھ شاعر : ساگر حیدر عباسی (کراچی پاکستان)

جن سانپوں کے سر کچلنے ہوں اُن کو دودھ نہیں پلایا کرتے۔

0
11
جو عزت نہ کر پائے تو وہ یار نارسا
جو عزت تمہیں دے تو وہ دشمن بھی پارسا
مری یہ نصیحت تم کبھی بھولنا نہیں
نہ رکھنا کبھی کم ظرف سے کوئی واسطہ

0
39
تُو تُو میں میں نہ کر زرا لحاظ رکھ
جو بد لحاظ ہے تو بے ادب ہوں میں
سنا ہو گا تو نے کہ زمانہ خراب ہے
ہوا جس سے زمانہ خراب وہی خراب ہوں میں

52
کسی کی حسرتیں دل سے مٹا کر کچھ نہیں ملتا
کسی کا دل مری جاناں دکھا کر کچھ نہیں ملتا
جہاں آندھی کا چرچہ ہو جہاں بارش کی رم جھم ہو
وہاں پر مٹی کے یہ گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہاں پر ساتھ مطلب کے بنا کوئی نہیں دیتا
امیدیں بھی یہ لوگوں سے لگا کر کچھ نہیں ملتا

53
یاد کر لوں تجھے بھول پاتا نہیں
ذہن میں بیٹھ جائے تُو جاتا نہیں
یاد کرتا نہیں اس لیے میں تجھے
پھر سوا تیرے کچھ یاد آتا نہیں

48
کہنے کی ہو جو کرتے ہیں بات ساگر
سینے میں ہم رکھتے ہیں جذبات ساگر
شاعری سے میری یہ سیکھا ہے میں نے
واہ ہوتی ہے دردِ خیرات ساگر

0
49
تمہیں اپنا سب کچھ مان لیا تھا میں نے
بس اتنا سا ہی اک جرم کیا تھا میں نے

0
64
نثروں سے مری غزل بناتے تھے جو
اب درس مجھے وہ اردو کا دیتے ہیں

0
85
دردِ دل میرا بڑھانے کے واسطے
حسرتیں دل کی مٹانے کے واسطے
درد سے دل کو جلانے کے واسطے
بے سبب مجھ کو رلانے کے واسطے
اب نہیں کچھ بھی چھپانے کے واسطے
لاج یہ اپنی بچانے کے واسطے

1
136
درد دل میں اس طرح سے رہتا ہے اب
جیسے کوئی بچہ ہو ماں کی گود میں

138
مرحلے عشق کے ختم ہو بھی چکے
ہم ترے درد کا رونا رو بھی چکے
رات بھر تکتے رہتے ہو تم چاند کو
لوگ خواب اوڑھ کر کب کہ سو بھی چکے
جس کہ غم میں یہ مجنوں بنے پھرتے ہو
خیر سے وہ کسی اور کے ہو بھی چکے

122
تمہاری بھول ہے ساگر کہ اک دن لوٹ آئیں گے
بھلا آنکھوں سے بہہ کر بھی کبھی آنسو پلٹتے ہیں​

1
107