مرحلے عشق کے ختم ہو بھی چکے
ہم ترے درد کا رونا رو بھی چکے
رات بھر تکتے رہتے ہو تم چاند کو
لوگ خواب اوڑھ کر کب کہ سو بھی چکے
جس کہ غم میں یہ مجنوں بنے پھرتے ہو
خیر سے وہ کسی اور کے ہو بھی چکے
ہم کو ہمدردیوں کی ضرورت نہیں
ہم یہ زخموں کی لڑیاں پرو بھی چکے
یہ سکوں دل کو اب بھی میسر نہیں
داغِ دل آنسوؤں سے یہ دھو بھی چکے

107