| مرحلے عشق کے ختم ہو بھی چکے |
| ہم ترے درد کا رونا رو بھی چکے |
| رات بھر تکتے رہتے ہو تم چاند کو |
| لوگ خواب اوڑھ کر کب کہ سو بھی چکے |
| جس کہ غم میں یہ مجنوں بنے پھرتے ہو |
| خیر سے وہ کسی اور کے ہو بھی چکے |
| ہم کو ہمدردیوں کی ضرورت نہیں |
| ہم یہ زخموں کی لڑیاں پرو بھی چکے |
| یہ سکوں دل کو اب بھی میسر نہیں |
| داغِ دل آنسوؤں سے یہ دھو بھی چکے |
معلومات