کسی کی حسرتیں دل سے مٹا کر کچھ نہیں ملتا
کسی کا دل مری جاناں دکھا کر کچھ نہیں ملتا
جہاں آندھی کا چرچہ ہو جہاں بارش کی رم جھم ہو
وہاں پر مٹی کے یہ گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہاں پر ساتھ مطلب کے بنا کوئی نہیں دیتا
امیدیں بھی یہ لوگوں سے لگا کر کچھ نہیں ملتا
نہیں ہے فائدہ کچھ گر مقدر میں اندھیرا ہو
تو راہوں میں یہاں شمعیں جلا کر کچھ نہیں ملتا
بھلا تم دوش دو گے بھی کسے ساگر خطاوں کا
یہاں لب پر گلے شکوے سجا کر کچھ نہیں ملتا
تمہاری آنکھیں برسیں گی تڑپتے تم رہ جاو گے
یہاں بے درد لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا

53