ذوالنورینؓ کی شہادت میں امت کے لیے سبق(یومِ شہادتِ عثمانؓ پر ایک استنتاجی مطالعہ)اسامہ بن رجب۔ ابن راہی تاریخِ انسانی میں کچھ ہستیاں ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں جو اپنے زمانے سے بڑی ہوتی ہیں، جن کے فیصلے وقت کی رفتار سے بھی آگے چلتے ہیں، جن کی بصیرت آئندہ نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن جاتی ہے، اور جن کی زندگی اپنے عہد کے ضمیر کو نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے قلوب کو مخاطب کرتی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک ہیں۔ کائناتِ محمدی ﷺ کے وہ روشن ستارے جنہوں نے دین کی صبحِ اولیں کو اپنی قربانیوں سے منور کیا، ان میں حضرت عثمان غنیؓ ایک ایسا مینارۂ نور ہیں جن پر ارض و سماء مشترکہ طور پر رشک کرتے ہیں۔ وہ جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "أَلَا أَسْتَحْيِي مِن رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ؟" {کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟}(صحیح مسلم)۔ یہ حیا صرف ایک ذاتی خصلت نہ تھی، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی جمال تھا جو خلافت کے ایوان سے لے کر ذاتی خلوت تک چھایا ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کی شخصیت حیا، انکسار، صبر اور سخاوت
بوریۂ تعلیم قصرِ تیموری سے برتر ہےابن راہی دنیا کی سطحی آنکھ ہمیشہ ظاہری چمک پر جا ٹھہرتی ہے۔ وہ ان گنت نگاہیں جو زر و زیور کے جھماکے سے مرعوب ہو جاتی ہیں، وہ ایوانِ شاہی کے میناروں کو عظمت کا نشان سمجھ بیٹھتی ہیں، اور ان ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں جن کے قبضے میں طاقت ہوتی ہے۔ مگر دنیا یہ اکثر بھول جاتی ہے کہ اقتدار کا چراغ ایک دن بجھ جاتا ہے، تخت خاک میں دفن ہو جاتا ہے، تاجوں پر زنگ لگ جاتا ہے، اور وہ قصر جن میں کبھی ساز و سرود کی محفلیں سجتی تھیں، ویرانی کے کھنڈروں میں بدل جاتے ہیں۔ لیکن ایک شے ہے جو نہ وقت کی زد میں آتی ہے، نہ زوال کی گرد اسے چھو سکتی ہے، ہر عہد کی پیشانی پر جس کا نام ثبت ہوتا ہے۔ وہ ہے علم۔ یہ وہ نور ہے جو اندھیاروں میں چراغ بنتا ہے، اور وہ قوت ہے جو قوموں کے زوال میں بھی امید کا پرچم بلند رکھتی ہے۔ وہی علم جو قرطاس و قلم سے بندھا ہے، جس کا مسکن بوریے پر بیٹھا وہ صاحبِ فکر ہے جسے دنیا کم جانتی ہے، مگر تاریخ پہچانتی ہے۔ دنیا کے ہنگاموں میں اگر کوئی شے مستقل ہے تو وہ اہلِ علم کی کم
اگر چہ پیر ہے مومن جواں ہیں لات ومنات(طلبۂ مدارس کی خدمت میں چند معروضات)✍️ اسامہ ابن راہی(15 جون 2023) جب تک ہم زندہ ہیں، ہمارے وجود میں دو چیزیں ہیں وہ ہے بدن اور روح، اور ان دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، دونوں متضاد بھی ہیں اور مماثل بھی۔ اب روح سے قطع نظر کر کے صرف جسم کو دیکھیں تو ہمارا یہ بدن کئی چیزوں پر مشتمل ہے جیسے ہاتھ، پیر، سر دھڑ وغیرہ۔ ان میں سے صرف ہاتھ کو دیکھیں تو تعجب ہوتا ہیکہ اللہ تعالی نے کیسی ساخت بنائی ہے کیسا سڈول ہے اگر مڑنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو کتنی تکلیف ہوتی !؟ مگر اسی ہاتھ کو چند سالوں بلکہ ایک ہی سال تک بانس کی کھپچیوں (جبیرہ) سے سیدھا باندھ دیا جاوے کہ حرکت نہ کر سکے، پھر ایک سال بعد کھولا جائے تو جس طرح دوسرا ہاتھ حرکت کریگا اس طرح نہیں کر سکتا یا اتنا لچکدار محسوس نہیں ہوتا جتنا دوسرا ہاتھ لچکدار ہوتا ہے۔ یہ تو بہر حال ایک مثال ہے مگر ہماری زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ چھٹیوں کے بعد ہمارے ذہنوں پر، ہمارے احساسات و خیالات پر ایک اوس پڑ جاتی ہے۔ عادات و افکار غرض ہمارا سارا نظام تعطیل کے بعد معطل سا ہو جاتا ہے، حالانکہ تعطیلات
جب اینٹی وائرس میں وائرس آجائے!!!✍️اسامه ابنِ راہی(29 نومبر 2022، منگل) بعض مرتبہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور روز مرہ کے واقعات بھی ہمیں بہت کچھ سبق دے جاتے ہیں، بس ان واقعات سے نتائج اخذ کرنے کے لیے فکر رسا اور اخاذ ذہن کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ مشاہدہ اور تجزیہ سے انسان میں یہ قوت پروان چڑھتی ہے، فکر بالیدہ ہوتی جاتی ہے، ذہنی اپج میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور پھر ہر چھوٹے چھوٹے واقعہ سے انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی کچھ حال ہمارا بھی ہوا۔ گزشتہ کل اپنے استاذ ومربی حضرت مولانا ابراہیم جامعی صاحب کے پاس لیپ ٹاپ کے کام سے جانا ہوا، اس میں ان پیج ڈلوانا تھا، علم ہوا کہ لیپ ٹاپ میں پہلے سے ایک اینٹی وائرس سافٹ ویئر کوِیک ہیل ہے جو فائلس کو ڈلیٹ کیے جارہا ہے، تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ 2017 کا ہے، اس حساب سے اسے پانچ سال ہوگئے تھے، ہمارے یہاں کے اینٹی وائرس تقریباً سال دو سال کی میعاد کے ہوتے ہیں، یہ چوں کہ پرانا تھا، اور ایک عرصے سے لیپ ٹاپ بند بھی تھا مگر پھر بھی کام کر رہا تھا تو کچھ اچھی فائلیں بھی ڈلیٹ کر رہا تھا، اور واقعی جو وائرس والی فائلیں تھیں انہیں باقی رکھ رہ