اگر چہ پیر ہے مومن جواں ہیں لات ومنات

(طلبۂ مدارس کی خدمت میں چند معروضات)


✍️ اسامہ ابن راہی

(15 جون 2023)


                جب تک ہم زندہ ہیں، ہمارے وجود میں دو چیزیں ہیں وہ ہے بدن اور روح، اور ان دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، دونوں متضاد بھی ہیں اور مماثل بھی۔ اب روح سے قطع نظر کر کے صرف جسم کو دیکھیں تو ہمارا یہ بدن کئی چیزوں پر مشتمل ہے جیسے ہاتھ، پیر، سر دھڑ وغیرہ۔ ان میں سے صرف ہاتھ کو دیکھیں تو تعجب ہوتا ہیکہ اللہ تعالی نے کیسی ساخت بنائی ہے کیسا سڈول ہے اگر مڑنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو کتنی تکلیف ہوتی !؟ مگر اسی ہاتھ کو چند سالوں بلکہ ایک ہی سال تک بانس کی کھپچیوں (جبیرہ) سے سیدھا باندھ دیا جاوے کہ حرکت نہ کر سکے، پھر ایک سال بعد کھولا جائے تو جس طرح دوسرا ہاتھ حرکت کریگا اس طرح نہیں کر سکتا یا اتنا لچکدار محسوس نہیں ہوتا جتنا دوسرا ہاتھ لچکدار ہوتا ہے۔ یہ تو بہر حال ایک مثال ہے مگر ہماری زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ چھٹیوں کے بعد ہمارے ذہنوں پر، ہمارے احساسات و خیالات پر ایک اوس پڑ جاتی ہے۔ عادات و افکار غرض ہمارا سارا نظام تعطیل کے بعد معطل سا ہو جاتا ہے، حالانکہ تعطیلات تو اس لئے تھیں کہ بہت دنوں تک ایک طرح کے نشاطات میں رہنے کی وجہ سے طبیعت جو اوب گئی ہے وہ سستا لے اور کچھ وقت آرام کر کے اگلا راستہ چابکدستی اور تندہی کے ساتھ ہم چل سکیں۔
            دنیا میں صرف جامعہ کے طلباء ہی طلباء نہیں ہیں، اسلام دشمنوں ( عیسائیوں اور یہودیوں ) کے بھی بچے ہوتے ہیں، ان کی بھی اسکولیں ہوتی ہیں، ہاسٹیل ان کے بھی ہوتے ہیں، ان کے بھی والدین ہوتے ہیں اور انہیں بھی گھر رہ کر چھٹیاں گزارنا اچھا لگتا ہے۔ ان میں بھی تذکر و نسیان ہوتا ہے اور تیقظ وتغفل جیسی فطری عادتیں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ہم وہاں جا کر دیکھیں وہ اس طرح لا پرواہی سے نہیں رہتے، درسگاہوں میں لا ابالی پن سے نہیں بیٹھتے، وہ اسلامی علوم کو اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے سیکھتے ہیں، علوم اسلامیه (تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ) کو دین حنیف کی بنیادیں متزلزل کرنے کیلئے حاصل کرتے ہیں استشراق کے ذریعے عقائد کی تخریب کاری اور اسلاف پر اعتماد کی بیخ کنی کیلئے تاریخ وسیرت میں دسترس حاصل کرتے ہیں، مگر صد افسوس کہ ہم بالکل بے پرواہ ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ ہماری پیشانیوں میں وہ فکر مندانہ لہریں دکھائی نہیں دیتیں، وہ حمیت اسلامی اور دشمنان اسلام سے آنکھیں چار کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہونے کے عظیم احساس سے ہماری بھؤیں خمیدہ اور ہماری پیشانیاں شکن آلود نظر نہیں آتیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو راقم کو رلا دیتی ہے ایک درد والم ہے جو پریشان کیے دیتا ہے۔ وہی درد و غم اور فکر امت جب طلباء مدارس میں دیکھنا چاہتا ہے تو ہر جگہ مایوسی ہوتی ہے دل افسردہ ہو جاتا ہے اور اکیلے میں اقبال کا یہ شعر گنگنانے لگتا ہے۔
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاه
          بڑی حیرت انگیز بات ہے بلکہ خطر ناک بھی کہ اسلام کے دشن اسلامی علوم کو مکمل چابکدستی سے حاصل کریں تا کہ دین میں کتر بیونت کر سکیں، وہ ساری ضروریات انسانی اور خواہشات نفسانی کے باوجود سر گرم عمل رہیں، جوش و خروش سے تخریبی مشن میں متفرق ہوں اور ہم مؤمن، اسلامی حمیت کے نام نہاد مدعی، علوم نبویہ کے حقیقی وارث احساس کمتری و کہتری، پستی و افسردگی، کنارہ کشی و پسپائی کی ذہنیت پالے ہوئے ہوں۔ زمانے کے لات و منات کے پجاری تو نئی تیاریوں، نئی امنگوں ، جدید ہتھکنڈوں کے ساتھ نئے دم خم کے ساتھ مبارزانہ نعروں اور مقابلانہ للکاروں کے ساتھ میدان میں اتریں اور مومنانہ فراست رکھنے والے خواب خرگوش میں ہوں۔ ان کے قویٰ میں اضمحلال پیدا ہو، ان کی فولادی صلابت پر افسردگی چھا جائے اور میدان عمل سے راہ فرار اختیار کر کے کنارہ کش ہو جائیں یا کسی گوشۂ عافیت کو تلاش کر کے مصلحت کوشی بلکہ مداہنت سے کام لیں۔ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ہماری ساری وفاداریاں اور ہمدردیاں اسلام کی سرفرازی کیلئے ہوں کیونکہ ہماری ساری کامرانیاں اور سرفرازیاں اسلام کی سرفرازی ہی میں پنہاں ہیں ۔
             ان جامعات کے قیام و نظام سے جن اوصاف عالیہ کی ضرورت تھی ان میں روز بروز انحطاط و زوال آرہا ہے، ہمارے فارغ ہونے والے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ امت مسلمہ کی ذمہ داری کا بارگراں اپنے کندھوں پر اٹھانے والے فضلاء اس حمیت دینی اور غیرت اسلامی سے تہی دامن، اس روح مسلمانی اور کیفیات ایمانی سے خالی اور اس قوت سے عاری ہوتے ہیں جولوگوں کو نئے سرے سے غورو فکر پر مجبور کرے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ زمانہ حقیقت شناش ہے، وہ بلندی ہی کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔ دماغ، بلند دماغ کے سامنے ہی جھکتے ہیں، یہ دور صلاحیت ہی کو صلابت سمجھتا ہے اور آج کی آسان زبان میں چمتکار ہی کو نمسکار ہوتا ہے۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ ہم اٹھیں، زمانے پر چھا جانے کا عزم لیکر اٹھیں کیونکہ زمانہ کی گردن میں جب تک اپنی فوقیت کا قلادہ نہ ڈالا جاوے وہ خم نہیں ہوتی اس لئے اپنے آپ کو بہت بلند بنائیں، گرچہ زمانے کی آستینوں میں بت ہیں مگر ہم کو حکم اذاں دیا گیا ہے آج آپ کی ضرورت ہے ہر چہار جانب سے ھل من مزید کی فغان مسلسل ہے مگر کوئی تو ہو جو انما انا قاسم والله یعطی کی علمبرداری کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے، لات منات کی کاوشوں کا قلع قمع کرے اور میر کارواں بن کر نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پر سوز جیسی عظیم صفات کو رخت سفر بنائے تاکہ دنیا کی ساری طاقتیں اور طاغوتی قوتیں اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں کیونکہ باطل قو تیں چاہے جتنی بڑھ جاویں مگر آج بھی ایک سہارا ہے کہ
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگِ لا تخف

6