ذوالنورینؓ کی شہادت میں امت کے لیے سبق

(یومِ شہادتِ عثمانؓ پر ایک استنتاجی مطالعہ)

اسامہ بن رجب‌۔ ابن راہی


                تاریخِ انسانی میں کچھ ہستیاں ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں جو اپنے زمانے سے بڑی ہوتی ہیں، جن کے فیصلے وقت کی رفتار سے بھی آگے چلتے ہیں، جن کی بصیرت آئندہ نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن جاتی ہے، اور جن کی زندگی اپنے عہد کے ضمیر کو نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے قلوب کو مخاطب کرتی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک ہیں۔ کائناتِ محمدی ﷺ کے وہ روشن ستارے جنہوں نے دین کی صبحِ اولیں کو اپنی قربانیوں سے منور کیا، ان میں حضرت عثمان غنیؓ ایک ایسا مینارۂ نور ہیں جن پر ارض و سماء مشترکہ طور پر رشک کرتے ہیں۔ وہ جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "أَلَا أَسْتَحْيِي مِن رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ؟" {کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟}(صحیح مسلم)۔ یہ حیا صرف ایک ذاتی خصلت نہ تھی، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی جمال تھا جو خلافت کے ایوان سے لے کر ذاتی خلوت تک چھایا ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کی شخصیت حیا، انکسار، صبر اور سخاوت کا حسین امتزاج تھی۔ دو مرتبہ رسول اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں سے نکاح کا شرف حاصل ہوا، اس لیے "ذوالنورین" کا انوکھا لقب ملا جو پوری انسانیت میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا۔

                حضور اکرم ﷺ نے ان کے ایمان، نیت، عزم اور آئندہ پیش آنے والے فتنے پر نہ صرف پیشگی تبصرہ کیا بلکہ راہِ حق پر ڈٹے رہنے کی تلقین بھی فرمائی۔ فرمایا: يَا عُثْمَانُ! إِنَّ اللهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ "اے عثمان! عنقریب اللہ تمہیں خلافت کا قمیص پہنائے گا، اگر منافق تم سے مطالبہ کریں کہ اسے اتار دو، تو ہرگز مت اتارنا!" (ترمذی)۔ گویا رسول اللہ ﷺ نے آنے والی آزمائش کی جھلک حضرت عثمانؓ کی آنکھوں میں ڈال دی تھی۔ اور وہ مردِ حیا، مردِ صبر، مردِ وقار اس آزمائش کے لیے نبوی وصیت کو حرزِ جاں بنائے رہا، حتیٰ کہ جان دے دی، مگر خلافت کا قمیص نہ اتارا۔ یہ پیشنگوئی کوئی عام جملہ نہ تھا، بلکہ ایک اخلاقی وصیت تھی، جو عثمانؓ نے زندگی کے آخری لمحے تک نبھائی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا فیصلہ صرف ان کا ذاتی نفع یا نقصان نہیں، بلکہ امت کی اجتماعی اخلاقیات کا فیصلہ بنے گا۔ اس لیے وہ ایک صبر ایسا لے کر اٹھے، جو تاریخ میں اصولوں کی سب سے اونچی مثال بن گیا۔

                حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت اگر صرف ایک انتظامی و عسکری کامیابی ہوتی تو بھی تاریخ اس پر ناز کرتی، مگر ان کی قیادت وہ تھی جس نے امت کی علمی، تمدنی اور روحانی بنیادوں کو ایسی وحدت عطا کی کہ صدیوں تک دنیا اسے یاد رکھے گی۔ ان کی خلافت کا عرصہ بارہ سال رہا؛ خلفائے راشدین میں سب سے طویل۔ ان کے ابتدائی چھ سال امن، فتوحات، عدل اور خوشحالی کے مظہر تھے۔ شمالی افریقہ، آرمینیا، آذر بائیجان، ترکستان اور ماوراء النہر کے وسیع علاقے فتح ہوئے، اور اسلامی بحریہ نے پہلی مرتبہ قیصرِ روم کو سمندر میں للکارا۔ اسی دَور میں پہلی مرتبہ مکمل سرکاری سطح پر قرآنِ کریم کو ایک واحد رسم الخط میں مدون کر کے تمام بلادِ اسلامیہ میں تقسیم کیا گیا۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو قیامت تک ہر مسلمان کے لیے حضرت عثمانؓ کے احسانات کا استعارہ ہے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کی اطلاع پر کہ مختلف علاقوں میں قاری حضرات الگ لہجوں میں قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور عوام اس اختلاف کو جھگڑے کا سبب بنا رہے ہیں، حضرت عثمانؓ نے فوراً صحابۂ کرام پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی، جن میں حضرت زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن عاصؓ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؓ شامل تھے، اور انہیں حکم دیا کہ تمام قراءات کو قریشی لہجے میں یکجا کیا جائے، تاکہ امت ایک رسم الخط پر مجتمع ہو جائے۔ اس اقدام سے انتشار کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ آج جو مصحف دنیا بھر میں رائج ہے، وہ "مصحفِ عثمانی" کہلاتا ہے۔ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی مسلمان جب قرآن کھولتا ہے، تو وہ دراصل مصحفِ عثمانی کا وارث بنتا ہے۔ یہ وہ وحدت ہے جو آج اختلافات کے گرداب میں گھری ہوئی امت کے لیے بھی ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ کام کسی جنگ، لشکر یا مال سے بڑھ کر امت پر عثمانؓ کا دائمی احسان ہے۔ ان کی سخاوت ضرب المثل تھی۔ جب غزوۂ تبوک کے لیے وسائل کی شدید قلت کا سامنا تھا تو عثمانؓ نے تین سو اونٹ، ستر گھوڑے، ایک ہزار دینار اور بے شمار سامان پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ" {آج کے بعد عثمانؓ جو بھی کریں، اُن پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔} (ترمذی، حدیث: 3701) یہ وہ سندِ براءت تھی جو نبی کی زبان سے نکلی اور جنت کی نوید بن گئی۔ اور پھر اس عثمانؓ کا زہد دیکھیے کہ جب خلافت کے تخت پر بیٹھے، تب بھی سادہ کھانا کھاتے، معمولی لباس پہنتے اور بیت المال سے ذاتی فائدہ لینے سے ہمیشہ اجتناب برتتے۔ خلیفۂ وقت ہوتے ہوئے ان کی زندگی فقیرانہ اور زبان ہمیشہ قرآن سے تَر رہتی۔

             حضرت عثمانؓ کی سب سے بڑی عظمت ان کی وہ جنگ ہے جو انہوں نے تلوار کے بغیر لڑی۔ جب مدینہ کے در و دیوار فتنہ پرور باغیوں کے شور سے لرزنے لگے، اور افواہوں کی آندھیاں امت کو تقسیم کرنے لگیں، تب سیدنا عثمانؓ نے اہلِ مدینہ کو مخاطب کر کے وہ جملہ کہا جسے آج ہر حاکمِ وقت کو سننے، سیکھنے اور اپنے لوحِ دل پر نقش کرنے کی ضرورت ہے: *”میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی مسلمان کا خون بہے۔“* یہ محض ایک نرمی یا عدمِ تشدد کی پالیسی نہیں تھی، بلکہ اصول کی وہ چوٹی تھی جہاں ایک انسان، اپنی جان دے کر بھی امت کی وحدت کو بچا لے۔ حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ جیسے اکابر صحابہ نے دفاع کی پیشکش کی، مدینہ کے نوجوان تلواریں سونتنے کو تیار تھے، مگر حضرت عثمانؓ نے سب کو روکا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ خود قربان ہو جائیں گے، مگر خانہ جنگی کا دروازہ نہ کھلنے دیا۔ انہوں نے اپنے غلاموں کو بھی ہتھیار اٹھانے سے منع کیا، اور قرآن کے ساتھ خلوت اختیار کی۔ چالیس دن کا محاصرہ، پانی کی بندش، تنہائی، اور امت کی طرف سے خاموشی کا زخم لیے، وہ مردِ حیا اپنے رب سے لو لگائے بیٹھا رہا۔ اور پھر بالآخر وہ دن آیا۔ جمعہ کی صبح، اٹھارہ ذی الحجہ، جب باغیوں نے دیوار پھلانگی، اور رسول اللہ ﷺ کے داماد پر ناحق تلوار اٹھائی۔ وہ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے: ﴿فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ یہی آیت ان کے سامنے تھی، اور جب پہلی ضرب پڑی، خون بہا اور چھینٹے قرآن کے اوراق پر گرے۔ لفظ تھا *صبغۃ اللہ* گویا تاریخ نے اپنا فیصلہ لکھ دیا، اور قرآن کریم کو رب قرآن نے گواہ بنادیا۔  

            حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت محض ایک خلیفہ کا قتل نہ تھا، بلکہ اسلامی تاریخ کی پہلی بڑی اخلاقی شکست تھی۔ دشمنِ باہر نہیں آئے تھے، فتنہ اندر سے اٹھا تھا۔ قاتل کوئی غیر قوم نہ تھی، بلکہ انہی چہروں میں سے تھے جو ظاہراً "اصلاح" کا نعرہ لگا رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ کی خاموشی دراصل ایک گونج تھی جو صدیوں سے امت کے کانوں میں بازگشت کر رہی ہے: کیا اقتدار کی قیمت اصولوں سے بڑھ سکتی ہے؟ کیا اپنی جان بچانے کے لیے امت کو خونریزی میں دھکیل دینا جائز ہے؟ سیدنا عثمانؓ نے ان سوالات کے جوابات اپنی خاموشی سے دیے، اور ان کا لہو گواہ ہے کہ وہ جیت گئے۔ ان کی قبر مدینہ کے قبرستان "بقیع" سے باہر بنی، کیونکہ اس وقت بقیع بھی ان کے حق میں تنگ ہو گیا تھا۔ مگر ان کا مقام، ان کی قربانی، ان کی حیا اور ان کا صبر، آج بھی ہر باوقار دل کے لیے ایک مینارۂ رشد و ہدایت ہے۔ وہ نہ صرف "امیرالمؤمنین" تھے، بلکہ "ضمیر الامۃ" تھے۔ ان کے خون کا ایک ایک قطرہ، امت کے ماتھے پر لکھی ہوئی وہ تحریر ہے جو اب بھی سوال کر رہی ہے: "کیا تم نے میرے صبر سے کچھ سیکھا؟ یا اب بھی طاقت کے نشے میں اصولوں کو روندتے چلے جاؤ گے؟"

             حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی جان دے دی، مگر امت کو باہم دست و گریباں ہونے سے بچا لیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ حقیقی قیادت وہی ہے جو اپنی ذات کو مٹا کر امت کے کُل کو بچائے، اور حقیقی مومن وہ ہے جو فتنے کے سامنے تلوار نہیں، صبر اٹھاتا ہے۔ مگر ان کے لہو سے جو سبق لکھا گیا، وہ آج کی امت کے نصاب سے غائب ہے۔ عثمانؓ کے صبر نے ہمیں یہ بنیادی اصول سکھایا کہ اجتماعیت کی بقا، انفرادیت کی قربانی میں ہے۔ جب تک امت کا ہر فرد، ہر قائد، ہر ادارہ اپنے ذاتی مفاد، اپنی رائے، اپنے گروہی مفادات کو ملت کے وسیع تر مفاد پر قربان کرنا نہیں سیکھے گا، اس وقت تک فتنہ زندہ رہے گا، اور وحدت محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ آج کا المیہ یہی ہے کہ ہر شخص "حق" کا نعرہ تو بلند کرتا ہے، مگر "حق" کو اپنے نفس کا تابع سمجھتا ہے۔ عثمانؓ نے اپنے نفس کو امت کے تابع کر دیا، اور یہی وہ اخلاقی بلندی ہے جو ہمیں ایک بار پھر امت کو جوڑنے کے لیے درکار ہے۔ اے کاش کہ ہم یہ بھولا بسرا سبق پھر سے یاد کرلیں کہ جب اجتماعی وحدت کی بات آتی ہے تو غلطی پر نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پیچھے کرلینا ہی کامیابی ہے، چہ جائیکہ اپنی آن بان شان کے لیے امت کو دھڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس پیغامِ شہادت عثمانؓ کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔


(15جون 2025/ ١٨ ذی الحجہ ١٤٤٦۔ دوپہر)


0
3