بوریۂ تعلیم قصرِ تیموری سے برتر ہے

ابن راہی 


               دنیا کی سطحی آنکھ ہمیشہ ظاہری چمک پر جا ٹھہرتی ہے۔ وہ ان گنت نگاہیں جو زر و زیور کے جھماکے سے مرعوب ہو جاتی ہیں، وہ ایوانِ شاہی کے میناروں کو عظمت کا نشان سمجھ بیٹھتی ہیں، اور ان ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہیں جن کے قبضے میں طاقت ہوتی ہے۔ مگر دنیا یہ اکثر بھول جاتی ہے کہ اقتدار کا چراغ ایک دن بجھ جاتا ہے، تخت خاک میں دفن ہو جاتا ہے، تاجوں پر زنگ لگ جاتا ہے، اور وہ قصر جن میں کبھی ساز و سرود کی محفلیں سجتی تھیں، ویرانی کے کھنڈروں میں بدل جاتے ہیں۔ لیکن ایک شے ہے جو نہ وقت کی زد میں آتی ہے، نہ زوال کی گرد اسے چھو سکتی ہے، ہر عہد کی پیشانی پر جس کا نام ثبت ہوتا ہے۔ وہ ہے علم۔ یہ وہ نور ہے جو اندھیاروں میں چراغ بنتا ہے، اور وہ قوت ہے جو قوموں کے زوال میں بھی امید کا پرچم بلند رکھتی ہے۔ وہی علم جو قرطاس و قلم سے بندھا ہے، جس کا مسکن بوریے پر بیٹھا وہ صاحبِ فکر ہے جسے دنیا کم جانتی ہے، مگر تاریخ پہچانتی ہے۔
               دنیا کے ہنگاموں میں اگر کوئی شے مستقل ہے تو وہ اہلِ علم کی کم آمیز مگر گہری موجودگی ہے۔ ان کے قافلے چھوٹے مگر صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ ان کی تنہائیوں میں ایک دنیا چھپی ہوتی ہے، اور ان کی خاموشیوں میں انقلاب کی گونج ہوتی ہے۔ اصحابِ علم کا یہ طبقہ ہر زمانے میں قلیل رہا ہے، مگر ان کا رتبہ خلائق سے افضل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اقتدار کے طلب گار ہوتے ہیں، نہ شہرت کے اسیر۔ وہ مجمع کے متوالے نہیں، فکر کے راہی ہوتے ہیں۔ یہ وہ قافلہ ہے جو زمانے کے شور سے دور، علم کے خاموش صحرا میں کاروانِ معانی لے کر سفر کرتا ہے۔ ان کا سرمایہ نہ زَر ہے نہ زمین، بلکہ وہ خزانہ ہے جو اوروں کے گزر جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اور وہ علم ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ علم سے ہی خوش ہوتے ہیں۔ نہ آسائشوں کی طلب، نہ ستائشوں کی تمنا۔ ان کا سکون اس خلوت میں چھپا ہوتا ہے جہاں غور و فکر کے سوا کچھ نہیں۔ جب دنیا مال و دولت کے بازار میں بھٹک رہی ہوتی ہے، یہ تنہائی کے کسی گوشے میں نظریات کے افق چھان رہے ہوتے ہیں۔ *جب دنیا سونے کی زرد چمک پر فریفتہ ہورہی ہوتی ہے تو یہ مردانِ فکر کسی بوسیدہ کتاب کے زرد صفحے پر نظریں جمائے اس پر لکھے حروف میں سرگرداں ہوتے ہیں، وہی لوگ زمانے کے فکری دھارے کا رُخ موڑنے والے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خلوت میں رہ کر جملے تراشتے ہیں، اور وہی جملے جلوتوں میں انقلاب کا طوفان برپا کرتے ہیں۔*
                 مزید حیرت یہ کہ ان کی خوشی کا ماخذ بھی دنیا سے جدا ہے۔ ان کے لیے عشرت وہ نہیں جو قصر میں میسر ہو، بلکہ وہ لذت ہے جو کسی تنہا لمحے میں ایک پیچیدہ علمی نکتے کو حل کرنے سے حاصل ہو۔ وہی لمحہ ان کے لیے عیشِ دوام بن جاتا ہے۔ *بوریا نشینی کی حالت میں ایک کونے میں بیٹھ کر علم کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے سے جو خوشی انہیں حاصل ہوتی ہے، وہ قصرِ تیموری میں دادِ عیش دینے والوں کو کبھی بھی حاصل نہ ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے۔* یہ ایک جملہ نہیں، ایک صداقت ہے، ایک فیصلہ ہے، جو صدیوں کی شاہانہ تاریخوں پر مہرِ انکار ثبت کرتا ہے۔ قصر والوں نے ساز و آواز کے شور میں خود کو کھویا، اور اہلِ علم نے خامشی کی کوکھ سے فکر کے ستارے نکالے۔ تخت والوں نے زَر جمع کیا، اور ان بوریہ نشینوں نے دنیا کو نظریے دیے۔ اور ان کے نظریہ آج تک باقی ہیں، جب کہ زر و جواہر ماضی کی داستانیں بن گئیں۔ 
               یہی تو اصل معیار ہے، یعنی بقا و دوام۔ قصر والوں کے نام تاریخ کی حاشیے میں مٹ جاتے ہیں، مگر اہلِ علم کے افکار صدیوں بعد بھی راہ دکھاتے ہیں۔ وہ جو کتب کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر جواہر نکالتے ہیں، ان کے جملے وقت کی گرد میں گم نہیں ہوتے، بلکہ وقت کو موم کی مانند ڈھالتے ہیں۔ وہ کونے کا گوشہ، وہ پرانی کتاب، وہ مدھم چراغ، وہ بوریا؛ یہ سب دنیا کی نظر میں معمولی سہی، مگر اصل دولت کے امین یہی ہیں۔ جن کے ہونٹوں پر "اللّٰھم زدنی علماً" کی صدا ہو، اُن کا مسکن قصر نہ بھی ہو تو کیا، ان کا مقام قصر والوں سے بلند ضرور ہوتا ہے۔ پس وہ گوشہ نشینی جو پہلی نظر میں درویشی لگتی ہے، دراصل فکری سلطنت کا سنگِ بنیاد ہوتی ہے۔ وہ خامشی جو قصر والوں کو بیگانگی دکھائی دیتی ہے، درحقیقت ہزارہا نکتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ علم کی خوشبو محل کی خوشبو سے زیادہ دیرپا ہوتی ہے، اور علم کی روشنی قندیلوں سے کہیں زیادہ روشن۔ وہ بوریا جس پر اہلِ علم بیٹھتے ہیں، وقت کی بادشاہیوں پر بھاری ہو جاتا ہے۔ یہی وہ سچائی ہے جسے اگر دل سے سمجھ لیا جائے، تو دنیا کی عظمت کے پیمانے بدل جائیں، اور قصر کے معنی نئے سرے سے لکھے جائیں۔ کیوں کہ علم کا بوریہ وہ ہے کہ 
ع: اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں


0
4