جب اینٹی وائرس میں وائرس آجائے!!!

✍️اسامه ابنِ راہی

(29 نومبر 2022، منگل)


           بعض مرتبہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور روز مرہ کے واقعات بھی ہمیں بہت کچھ سبق دے جاتے ہیں، بس ان واقعات سے نتائج اخذ کرنے کے لیے فکر رسا اور اخاذ ذہن کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ مشاہدہ اور تجزیہ سے انسان میں یہ قوت پروان چڑھتی ہے، فکر بالیدہ ہوتی جاتی ہے، ذہنی اپج میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور پھر ہر چھوٹے چھوٹے واقعہ سے انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی کچھ حال ہمارا بھی ہوا۔ گزشتہ کل اپنے استاذ ومربی حضرت مولانا ابراہیم جامعی صاحب کے پاس لیپ ٹاپ کے کام سے جانا ہوا، اس میں ان پیج ڈلوانا تھا، علم ہوا کہ لیپ ٹاپ میں پہلے سے ایک اینٹی وائرس سافٹ ویئر کوِیک ہیل ہے جو فائلس کو ڈلیٹ کیے جارہا ہے، تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ 2017 کا ہے، اس حساب سے اسے پانچ سال ہوگئے تھے، ہمارے یہاں کے اینٹی وائرس تقریباً سال دو سال کی میعاد کے ہوتے ہیں، یہ چوں کہ پرانا تھا، اور ایک عرصے سے لیپ ٹاپ بند بھی تھا مگر پھر بھی کام کر رہا تھا تو کچھ اچھی فائلیں بھی ڈلیٹ کر رہا تھا، اور واقعی جو وائرس والی فائلیں تھیں انہیں باقی رکھ رہا تھا، یعنی اینٹی وائرس کو بھی وائرس ہوگیا تھا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ اس کے پیچھے ضائع ہوا، بعد میں اسے اَن اِنسٹال کردیا۔ اس واقعہ نے ذہن پر بہت کچھ باتیں مرتسم کر دیں، جو باذوق احباب کی خدمت میں پیش ہیں۔

               ایک تو یہ کہ ہماری زندگی میں بھی کئی ایسے گناہ کے وائرس ہوتے ہیں، جنہیں ہم اینٹی وائرس یعنی گناہ نہیں سمجھتے، حالانکہ ان کی وجہ سے ہماری نیکیوں کی بہت سی اچھی اچھی فائلیں ڈلیٹ ہوتی رہتی ہیں، اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، حدیث میں بھی آیا ہے کہ بندہ اپنی زبان سے ایسا لفظ کہہ دیتا ہے جس میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا جبکہ اس بات کی وجہ سے وہ جہنم کی اتنی گہرائی میں گرا دیا جا تا ہے جسکا فاصلہ 70سال کی مسافت کے بقدر ہے(ترمذی) اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا(مسلم) ہائے الله! کتنی بڑی وعید ہے، کہ ساری زندگی بہت ساری نیکیاں کمائیں، بہت سی حسنات کی فائلیں بناتے رہے، مگر حقوق العباد میں گڑبڑ کی وجہ سے وہ ساری فائلیں ڈلیٹ ہوتی گئیں، اور پھر ہم ایک نقصان سے دوچار ہوئے جس کی تلافی ناممکن ہے، لہذا ایسے سارے وائرس سے اپنے نامۂ اعمال میں اپلوڈ کی ہوئی نیکیوں کی فائلوں کی حفاظت کیجیے۔

              دوسری بات یہ کہ بعض اوقات اینٹی وائرس بھی وائرس کا شکار ہوسکتا ہے، لہذا ہمارے اپنے سماج میں بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو اصلاح امت کا خدائی فوجدار جتلاتے رہتے ہیں، ٹھیک ہے، ان سے اچھے کام بھی ہوتے ہیں، اس سے انکار نہیں ہے، لیکن خود انہیں اپنی اصلاح کی فکر بھی کرنی چاہیے، کہیں دوسروں کے وائرس دور کرتے کرتے خود ان میں ہی وائرس نہ آن پڑے، اور ضروری نہیں کہ کہ ان کا وائرس عام لوگوں کی طرح ہو، بلکہ وہ وائرس حب جاہ، کبر و نخوت، بڑا پن وغیرہ کسی بھی صورت میں ہوسکتا ہے، اصلاح کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہی صلاح سے محروم ہوں تو کام کیسے بنے گا! اور پھر ان کا وہ وائرس خود ان کی ذات کے لیے بھی اور دیگر لوگوں کے لیے بھی مضر بن جاتا ہے، بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی جانب بھی دھیان دیتے رہیں، کسی الله والے کی صحبت میں رہیں، یا ان سے تعلق استوار کریں، اس لیے خدارا قوم کی ناؤ کھینے والے خود اپنے دل کے حال کا بھی جائزہ لیتے رہیں، کہیں ناخدا کے دماغ میں خدائی کا بخار چڑھ گیا تو ساری نیا ڈوب جائے گی۔ بہت ضروری ہے کہ ناصحین اور مصلحین کی حیات خوابیدہ میں وہ کشمکش پیدا کی جائے کہ وہ خمول ذات سے نکل کر احتساب کائنات کا فریضہ انجام دیں، اس آفاقی حقیقت کو سمجھیں کہ حقیقی درمندی اور غمگساری تعارف و تعریف کی حد بندیوں سے ماوراء ہوتی ہے، اور خلوص نیت کا بیج کبھی شرمندۂ دہقاں نہیں ہوتا۔


0
4