قطیع کے لغوی معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں اور عروض کی اصطلاح میں شعر کے ارکان (الفاظ) کو عروضی بحر کے ارکان پر وزن کرنے کا نام تقطیع ہے۔اشعار کی تقطیع کس طرح کی جاتی ہے؟ تقطیع کرنے کے اصول و ضوابط کیا ہیں اور تقطیع کرتے وقت کیا کیا گنجائش موجود ہے؟ ان سب کے بارے میں پڑھانا ماہرین عروض اور اساتذہ شعرا کا کام ہے۔ تاہم کچھ دوستوں کے کہنے پر میں اپنی ہی ایک غزل کی تقطیع پیش کر رہا ہوں۔کسی جگہ کوئی غلطی نظر آئے تو آگاہ کیجئیے۔ یہ غزل بحر ہزج مسدس مخذوف میں کہی گئی ہے، لیکن بحر کا نام یاد کرنا بہت ضروری نہیں ہے تاہم ارکان یاد ہونے چاہیے۔ارکان : مفاعیلن مفاعیلن فَعُولننوٹ : دو چشمی "ھ" اور نون غنہ "ں" کا وزن تقطیع میں شمار نہیں ہوتا۔بہت مجبور ہوتے جا رہے ہومفا عی لن / بہت مج بوم فا عی لن /ر ہو تے جافعو لن / رہے ہومسلسل دور ہوتے جا رہے ہومفا عی لن / مسل سل دوم فا عی لن /ر ہو تے جافعو لن / رہے ہوکسی کو پھر سے کوئی دکھ دیا ہےمفا عی لن / کسی کو پھرم فا عی لن / سے کو ئی دکھفعو لن / دیا ہےبڑے مسرور ہوتے جا رہے
الحمدللہ کہ ہم سب کچھ نہ کچھ درجہ میں دین دار لوگ ہیں. دین دار نہ بھی سہی، کم سے کم دین الہی کے ماننے والے تو ہیں.دین دار ہونے کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے، کہ انسان دنیا سے منہ موڑ لے. بلکہ دین اسلام تو دنیاوی معاملات میں اپنے ماننے والوں کو مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے.اسلام نے ہم سب کو ہر معاملہ میں اعتدال کا دامن تھامے رکھنے کا درس دیا ہے. لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے، کہ اب ہر طرف شدت ہی شدت ہے اور اعتدال کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا.دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں. کسی زبان کی ادبی کتابیں اس زبان کے لیے آکسیجن کی مانند ہوتی ہیں. ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں بھی آپ کو متشدد نظریات کے حامی لوگ نظر آئیں گے. مثلا بعض مذہبی افراد چاہتے ہیں کہ ادبی کتابیں بھی مذہب سے بھر جائیں اور بعض اس کے برعکس اس عزم شیطانی کے ساتھ تگ و دو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہ کس طرح مذہب کے خلاف آواز کو ادبی رنگ میں پیش کیا جائے. ان دونوں متشدد نظریات کے برعکس میرا ماننا یہ ہے کہ لازمی نہیں ہے، کہ ادبی کتابیں مذہب سے بھر جائیں. البتہ ادبی کتابوں میں تھوڑا بہت مذہبی رنگ بھی ہونا چاہیے. اور جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ادب