کل میری کتابوں کی الماری سے |
کسی کے رونے کی آواز آئی |
تھوڑا سا گھبرا کر پھر |
خود کو حوصلہ دے کر |
چل کر پاس گیا جب میں |
اور نظر پڑی کتابوں پر |
ایسا نظارہ دیکھا کہ |
دھک سے رہ گیا اس دم |
کتابوں نے ایک دوسرے کو |
سینے سے لگایا تھا لیکن |
سبھی اداس تھیں مجھ سے |
میں نے اداسی کی وجہ پوچھی |
بہ زبان حال سب کہنے لگیں |
تجھے یاد بھی کچھ ہے عباسؔ؟ |
کہ کب آخری ملاقات ہوئی؟ |
میری آنکھیں جھکیں ندامت سے |
اور جلد ملنے کا وعدہ کیا |
لیکن پھر کب خدا جانے |
ملاقات دوبارہ ہوگی |
معلومات