الحمدللہ کہ ہم سب کچھ نہ کچھ درجہ میں دین دار لوگ ہیں. دین دار نہ بھی سہی، کم سے کم دین الہی کے ماننے والے تو ہیں.


دین دار ہونے کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے، کہ انسان دنیا سے منہ موڑ لے. بلکہ دین اسلام تو دنیاوی معاملات میں اپنے ماننے والوں کو مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے.

اسلام نے ہم سب کو ہر معاملہ میں اعتدال کا دامن تھامے رکھنے کا درس دیا ہے. لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے، کہ اب ہر طرف شدت ہی شدت ہے اور اعتدال کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا.


دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں. کسی زبان کی ادبی کتابیں اس زبان کے لیے آکسیجن کی مانند ہوتی ہیں. ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں بھی آپ کو متشدد نظریات کے حامی لوگ نظر آئیں گے. مثلا بعض مذہبی افراد چاہتے ہیں کہ ادبی کتابیں بھی مذہب سے بھر جائیں اور بعض اس کے برعکس اس عزم شیطانی کے ساتھ تگ و دو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہ کس طرح مذہب کے خلاف آواز کو ادبی رنگ میں پیش کیا جائے.


 ان دونوں متشدد نظریات کے برعکس میرا ماننا یہ ہے کہ لازمی نہیں ہے، کہ ادبی کتابیں مذہب سے بھر جائیں. البتہ ادبی کتابوں میں تھوڑا بہت مذہبی رنگ بھی ہونا چاہیے. اور جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ادبی کتابوں میں مذہب ہو یا نہ ہو لیکن ادبی کتابیں بس مذہب کے متصادم نہ ہوں.

#احساسات ✍️ Abbas Ali Abbas


0
277