تری یاد دل بدر کروں، ہمت نہ کر سکا
کبھی خود سے، اپنی ذات سے، ہجرت نہ کر سکا
تجھے بھول کر میں پاؤں جہاں کی مسرتیں
کبھی بھول کر بھی ایسی تجارت نہ کر سکا
سیاہی ثنائے شہ میں قلم کی ہوئی تمام
رعایا کے دل کا درد روایت نہ کر سکا
پشیماں وہ یوں ہوئے کہ مری لاش سے کہا
صد افسوس تیرے قتل میں عجلت نہ کر سکا ​

1
152
بہت خوب

0