تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے |
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے |
اگر کوئی رُوٹھے تو جا کر مناؤں |
کہاں تجھ کو ڈھونڈوں کہاں تجھ کو پاؤں |
وہی آسماں ہے وہیں پر زمیں ہے |
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے |
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے |
لبوں پر رواں ہے تمہاری کہانی |
وہ مد ہوش آنکھیں وہ بہکی جواانی |
ملو گی کسی دن مجھے یہ یقیں ہے |
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے |
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے |
تمہیں کھو دیا ہے یہ میری خطا تھی |
تمہی میری منزل تمہی راستہ تھی |
مرے دل میں تُو ہی ازل سے مکیں ہے |
تِو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے |
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے |
جسے بھی تُو چاہے جدھر بھی تُو جائے |
مرے پاس پہنچے مرے پاس آئے |
مَیں انگشتری ہوں تُو اس کا نگیں ہے |
تِو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے |
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے |
(اس غزل کے پہلے دو بند جناب فیّاض ہاشمی مرحوم کے ہیں جسے متعددّ شعرا نے استعمال کیا ہے ) |
معلومات