فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن |
خوب ہے بہت بہتر خوب ہے بہت بہتر |
گیت بس بہانہ تھا درد گنگنانا تھا |
اشک پی کے جیتے تھے کیا عجب زمانہ تھا |
زرد زرد شامیں تھیں برف برف راتیں تھیں |
چار سو اداسی تھی ہم کو مسکرانا تھا |
لوگ کچھ شناسا تھے دھند سے جو ابھرے تھے |
غمزدہ سی آنکھوں میں انکہا فسانہ تھا |
برف پوش وادی کے دل میں ایک لاوا تھا |
آہ اور نالے تھے زخم کچھ پرانہ تھا |
بے زباں صدائوں میں چیختی پکاریں تھیں |
بے حسوں کی بستی تھی سن رہا زمانہ تھا |
بلبلیں جو گاتی تھیں کرب تھا سناتیں تھیں |
گھر گٸیں تھیں طوفاں میں دور ہر ٹھکانہ تھا |
رین میں اماوس کی سایہ تھا نہ ساتھی تھا |
اک چراغ روشن تھا جگ کو جگمگانا تھا |
جل رہے تھے صحرا میں نخل سب پیاسے تھے |
بارشوں کی چاہت میں ہر شجر دوانہ تھا |
پھر بہار آئے گی آس ہے حمیرا کی |
پھول اور کلیوں نے پھر چمن سجانا تھا |
معلومات