Circle Image

Faisal Ahmed

@Faisal123

اس کی نمناک نگاہوں میں تھا اک سیلِ رواں
میری آنکھوں سے بھی اشکوں کا سمندر نکلا
اس کی اک "ہممم "کے بھی ہوتے ہیں ہزاروں معنی
مرا دیوان بھی " ردّی کے برابر " نکلا
مجھ کو معلوم نہ تھا کیا ہے ؟ نظر کا دھوکا
میں جسے موم سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا

1
87
چند ہی لوگ مرے کام کے تھے اور وہ لوگ
ہوگئے رسم و رواجوں سے بغاوت کا شکار
آپ اک زخمِ محبت سے ہی بے تاب ہوئے؟
ہم تو برسوں سے ہیں یک طرفہ محبت کا شکار
فیصل احمد

1
144
غزل
دھوپ سے سایہءِ دیوار تک آتے آتے
"مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے "
بیت جاتی ہیں کئی وصل کی گھڑیاں اس میں
آپ سے، تم سے، سنو یار تک آتے آتے
ہے ترے غم کی حرارت کا اثر اشکوں پر

3
124
کون ڈرتا ہے بھلا اب ہجر کے آزار سے
خوف آتا ہے کسی کے" وعدۓ دیدار" سے
مجھ کو ڈر لگتا ہے اس کی عادتِ انکار سے
کوئی تو پوچھے مرے بارے میں میرے یار سے
عمر بھر کی دشمنی کو بھول جائیں گے تری
تم فقط اک بار ہم سے بات کر لو پیار سے

1
127
گائیٹن سے عشق ہے فردوس سے بیزار ہیں

99
کرتا تھا ایک شخص پہ اندھا یقین میں
"ہے یاد مجھ کو اپنی حماقت وہ آج بھی"
اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا اس کو پتا نہیں
کرتا ہے بس بدن کی حفاظت وہ آج بھی
اب بھی کسی کے جسم پہ مرتا ہے، ہاۓ وہ!
سمجھا نہیں ہے لفظ " محبت " وہ آج بھی

60
منقسم ہوگئیں جب اہلِ جہاں میں خوشیاں
میرے حصے میں ترے پیار کا اک پل آیا
یوں تو جذبات کے اظہار سے خالی ہے جبیں
نام سن کر ترا ، ماتھے پہ مرے بل آیا
آج مصروف ہوں کل ملتے ہیں کہتی تھی وہ روز
"آج" گزرا نہ کبھی اور نہ کبھی " کل" آیا

81
یاں دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے
اس ربط کا معیار فقط سود و زیاں ہے
پابندی ء اوقات نہیں " عشق کا جذبہ "
بوڑھا ہوں مگر دل تو مرا اب بھی جواں ہے

0
63
خزاں کی رت کو وہ فصلِ بہار کہتا ہے
عجیب شخص ہے دشمن کو یار کہتا ہے
اسے حساب کے کلیوں سے کچھ غرض ہی نہیں
گنے چنوں کو بھی وہ بےشمار کہتا ہے
میں اس کی سادہ دلی کی مثال کیسے دوں
وہ اتنا سادہ ہے نفرت کو پیار کہتا ہے

0
115
ہمارا عشق یہ اعجاز بھی دکھا دے گا
عجب نہیں ترا ہنسنا ہمیں رلا دے گا
ہر ایک گام پہ روکے گی اس کو یاد مری
قدم قدم پہ وہ مڑ کر مجھے صدا دے گا
وہ جانتا ہے بدن کو تراشنے کا ہنر
جہاں جہاں بھی نشاں ہے مرا مٹا دے گا

67
اجل کے سوز کو لمحوں میں بے اثر کر دے
وہ چھو کے نبض کو میری مجھے امر کر دے

200