کون ڈرتا ہے بھلا اب ہجر کے آزار سے
خوف آتا ہے کسی کے" وعدۓ دیدار" سے
مجھ کو ڈر لگتا ہے اس کی عادتِ انکار سے
کوئی تو پوچھے مرے بارے میں میرے یار سے
عمر بھر کی دشمنی کو بھول جائیں گے تری
تم فقط اک بار ہم سے بات کر لو پیار سے
یار کی دہلیز سے اٹھ کر کہاں جائیں گے ہم
اس نے جب در سے اٹھایا لگ گئے دیوار سے
مجھ سے ملتے وقت ہوتا ہے اسے پاسِ حیا
سامنے میرے گلے ملتا ہے وہ اغیار سے
دسترس میں بس نہیں ہے اک ترے غم کا علاج
ورنہ لے آتے ہیں ہر شے آج کل بازار سے

1
129
واااااہ واااااہ واااااہ ماشاءاللہ کیا کہنےےےےے❤️