اس کی نمناک نگاہوں میں تھا اک سیلِ رواں
میری آنکھوں سے بھی اشکوں کا سمندر نکلا
اس کی اک "ہممم "کے بھی ہوتے ہیں ہزاروں معنی
مرا دیوان بھی " ردّی کے برابر " نکلا
مجھ کو معلوم نہ تھا کیا ہے ؟ نظر کا دھوکا
میں جسے موم سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا
جب تلک زخم نہیں دیتے ہو ملتا نہیں چین
دل بھی اے یار ترے ظلم کا خوگر نکلا
کلام : فیصل احمد

1
89
❤️❤️