عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں اک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں

مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن


8
2121
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
مرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر
برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا خدایا خدایا
کبھی ایک سسکی کبھی اک تبسم کبھی صرف تیوری

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


639
کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں
اگر میں حدود زماں و مکاں سب مٹا دوں
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں
تو ہر قید اُٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے

فَعُولن فَعُولن فَعُولن


609
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو، یہاں اب سے کچھ سال پہلے مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا بیٹی: یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو، مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر وہ کہنے لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں کی سیہ چمنیاں، آسماں کی طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں، یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی!

فِعْل فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُولن


0
356
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
873
میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
1831
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
میں کوئی برائی نہیں ہوں زمانہ نہیں ہوں
تسلسل کا جھولا نہیں ہوں
مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے کیا زمانے میں ہے

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1947
اے جہاں زاد، ​نشاط اس شبِ بے راہ روی کی​
میں کہاں تک بھولوں؟​
زور ِ مَے تھا،
کہ مرے ہاتھ کی لرزش
تھی ​کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!​

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2508
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے

مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن


2588
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1913
ایک دن باغ میں جا کر، چشمِ حیرت زدہ وا کر، جامۂ صبر قبا کر، طائرِ ہوش اڑا کر شوق کو راہ نما کر، مرغِ نظارہ اڑا کر،
دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی، ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی،
ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی ہری تھی، خوش نسیمِ سحری تھی،
سرو و شمشاد وصنوبر، سنبل و سوسن وعرعر، نخل میوے سے رہے بھر، نفسِ باد معنبر، درو دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق،
کہیں انگور معلق، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوغائے کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل
غم ہوا کشتہ و بسمل شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل، روح بالیدہ ہو آئی، شان قدرت نے دکھائی جان سے جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا

فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن


2472