فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو، یہاں اب سے کچھ سال پہلے مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا بیٹی: یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو، مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر وہ کہنے لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں کی سیہ چمنیاں، آسماں کی طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں، یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی! |
فِعْل فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُولن
ایک دن باغ میں جا کر، چشمِ حیرت زدہ وا کر، جامۂ صبر قبا کر، طائرِ ہوش اڑا کر شوق کو راہ نما کر، مرغِ نظارہ اڑا کر، |
دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی، ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، |
ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی ہری تھی، خوش نسیمِ سحری تھی، |
سرو و شمشاد وصنوبر، سنبل و سوسن وعرعر، نخل میوے سے رہے بھر، نفسِ باد معنبر، درو دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، |
کہیں انگور معلق، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوغائے کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل |
غم ہوا کشتہ و بسمل شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل، روح بالیدہ ہو آئی، شان قدرت نے دکھائی جان سے جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا |
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن