یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے |
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے |
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا |
مرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر |
برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا خدایا خدایا |
کبھی ایک سسکی کبھی اک تبسم کبھی صرف تیوری |
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے |
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئیے جا رہی ہے |
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری |
یہ اک گلستاں ہے ہوا لہلہاتی ہے کلیاں چٹکتی ہیں |
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں کھل کھل کے مرجھا کے |
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں |
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری |
کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے |
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے دامن میں وادی ہے وادی میں ندی |
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو |
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکس مجسم بنے ہیں |
مگر میں تو دور ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں |
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری |
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ |
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا |
نہ صحرا نہ پربت نہ کوئی گلستاں فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو |
کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی |
بحر
متقارب مثمن سالم مضاعف
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات