خواہشیں سب دل میں رہ گئی ہیں کھٹک کر
چل رہی ہیں دل کی دھڑکنیں بھی اٹک کر
صبر کو میرے معاملہ ہے یوں در پیش
بزمِ عدو میں وہ بیٹھتے ہیں مٹک کر
ذہن کو الجھا دیں رخ پہ جب سرِ محفل
رکھتے ہیں انگشت سے وہ لٹ کوں جھٹک کر
آپ تو اب کیجیے نہ وعدے کی کچھ بات
آپ کے سب وعدے رہ گئے ہیں لٹک کر
گریہ سے مقصود کچھ نہیں ہے کہ دی شب
دیکھا ہے سو بار میں نے سر کو پٹک کر
دیکھ کے دھت مے میں شیخ جی ہوۓ برہم
ایک دھری سر پہ سر گراں نے سٹک کر

5
151
واہ ??

شکریہ

انداز بیان اچھا ہے کچھ جگہہ اٹک کھٹک ذرا زبرستی کے لگ رہے ہیں ان کی قدرتی آنا چاہے ۔ روانی بھی خود ساختہ سی ہے مطلب کچھ مصرے ٹھیک باقی غلط طرح کی لکھی گیئی ہے
پھر بھی مجموئی طور پر قابل ستائش کاوش ہے آپ کی

محترم کاشف صاحب ولی دکنی کو پڑھیں آپ کو اس غزل کی روانی بھی اچھی لگے گی اور قافیہ بھی ۔۔

آپ کو میر کا ایک شعر دکھاتا چلوں

سرو و تدرو دونوں پھر آپ میں نہ آئے
گلزار میں چلا تھا وہ شوخ ٹک لٹک کر

0
محترم ہر شاعر کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے وہ کس طرح الفاظ کو پکڑتا ہے یا کس طرح ترتیب دیتا ہے اور کہنا کیا چاہتا ہے ۔۔ یہ کلام بہت سے لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آیا اور کچھ کو اچھا نہیں لگا اور کچھ نے بہت پسند کیا ۔۔ آپ بھی شاید مرے رنگ کو پکڑ نہیں پا رہے۔۔ لیکن کوئی بات نہیں یہ فطری بات ہے ۔۔ تبصرے کے لیے بہت شکریہ

0