خواہشیں سب دل میں رہ گئی ہیں کھٹک کر |
چل رہی ہیں دل کی دھڑکنیں بھی اٹک کر |
صبر کو میرے معاملہ ہے یوں در پیش |
بزمِ عدو میں وہ بیٹھتے ہیں مٹک کر |
ذہن کو الجھا دیں رخ پہ جب سرِ محفل |
رکھتے ہیں انگشت سے وہ لٹ کوں جھٹک کر |
آپ تو اب کیجیے نہ وعدے کی کچھ بات |
آپ کے سب وعدے رہ گئے ہیں لٹک کر |
گریہ سے مقصود کچھ نہیں ہے کہ دی شب |
دیکھا ہے سو بار میں نے سر کو پٹک کر |
دیکھ کے دھت مے میں شیخ جی ہوۓ برہم |
ایک دھری سر پہ سر گراں نے سٹک کر |
معلومات