سرخ ڈورے سے آنکھوں میں پڑنے لگے
خواب تعبیر سے اپنی لڑنے لگے
کس طرح کوٸ منزل پہ پہنچے گا جب
لوگ چلتے ہوۓ بھی ہیں ڈرنے لگے
جو خطر ناک تھے وہ سبھی بچ گۓ
بے ضرر ان کے بدلے میں مرنے لگے
اک زرا سا جو زخمی ہوا میرا دل
سب ہی ٹانکے پرانے اُدھڑنے لگے
جب سے دنیا کی جانب سے غافل ہوۓ
ہر گھڑی رب سے باتیں ہیں کرنے لگے
کس طرح سے رکیں گے قدم ناز کے
اب تو منزل کی جانب ہیں بڑھنے لگے
مسما ناز

5
174
آہا کیا ہی کہنے بہت خوب

غزل اچھی ہے مگر آپ ایک چیز ذہن میں رکھیں۔ پڑنے ادھڑنے وغیرہ میں "نے" مصدریہ ہے اس لیۓ آپ کی ردیف ہوئ "نے لگے" اب قافیہ آپکا ہوگا پڑ بڑ وغیرہ - لہٰذا ڈر اور کر وغیرہ آپ کے قافیے نہیں ہو سکتے ۔

واہ! عمدہ غزل قافیے کی باریکیوں میں جانے کے علاوہ !

سر قافیہ کے بغیر غزل ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر آپ قافیے کی باریکیوں کو نظر انداز کر دیں گے تو غزل بچے گی ہی نہیں۔

آپ سب کی اصلاح پر شکر گزار ہوں اور جو غلطی ہوٸ ہے اسے دوبارہ نہ دھراوں یہ میری اولین کوشش ہوگی
ہم اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں اور میں ابھی سیکھنے کی شروعات میں ہوں
بہت بہت شکر گزار

0