کئی بار خدا مل جاتا ہے اس دنیا کے بت خانوں میں
دیکھے ہیں قلندر بھی میں نے چلتے پھرتے انسانوں میں
مزدور ولی ہو جاتا ہے قیدی بھی بری ہو جاتا ہے
دیکھے ہیں سمندر بھی میں نے ان دشت بھرے ویرانوں میں
خالی دامن رہ جاتے ہیں ساری دنیا کو پا کر بھی
دیکھے ہیں سکندر بھی میں نے دنیا کے قبرستانوں میں

6
202
واہ واہ یعنی کیا زریں خیال ہے کہ انسانوں میں قلندر مل رہے ہیں ویرانوں میں سمندر اور بت خانے میں خدا ۔ سکندر بھی ہیں قبرستانوں میں ۔
۔کچھ دانش ڈالو میخانوں میں
تنقید کیا کریں ان زمانوں میں
بہت ہی بوالعلجبی در سی آ چکی ہے کچھ معروضی کچھ معرفتی اور کچھ وحدت الوجود اور دار منصور کا شاخسانہ ہے عجب مقام فکر ہے یعنی ایک غزل میں جہانوں کا سواد لو - نقد لو یا دام چکا کر لو - یعنی یہ اردو کی آخری غزل ہے -

0
آپ کے اس قیمتی وقت کا شکریہ ☺

0
شکریہ ادا کر دیا ہے
یہ تم نے کیا کر دیا ہے
مجہے کبھی تنقید کا کہ کر
انوکھا حق ادا کر دیا ہے

اشعار بہت عمدہ ہیں اور معانی بھی گہرے ہیں۔
لیکن کچھ ظاہر پرست افکار نگاری کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اپنی دُھن میں مگن رہیے اور محنت جاری رکھیے۔

جزاک اللہ محمد جنید حسان صاحب
حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں☺

اور ہاں سکندر خالی ہاتھ گیا تھا تو خالی دامن یا تہی دامن سے بہتر خالی ہاتھ ہے ۔ خالی ہاتھ کی term فیمس ہے اس کے ساتھ جب اس نے کہا تھا کہ دیکھو سب کچھ پا کر جا خالی ہاتھ رہا ہوں