برف پر چاند کی کِرنوں نے تِرا نام لِکھا |
میں نے رادھاؔ کی طرح تُجھ کو فقط شامؔ لِکھا |
تیری آنکھوں سے محبّت کی چھلکتی ہے مئے |
یُوں ہی نینوں کو تیرے میں نے نہِیں جام لِکھا |
صُبح پُھوٹی ھے کِناروں سے تِرے آنچل کے |
کھو کے زلفوں میں تِری شام نے انجام لِکھا |
معرکے عِشق کے سر کر تو لیئے ہیں کتنے |
پس مجھے کاتبِ تقدِیر نے ناکام لِکھا |
پہلے دیوِی نے مُجھے پیار کے درشن بخشے |
پِھر مِرے نام پہ اِلزام ہی اِلزام لِکھا |
مُجھ کو کاذِب کی گواہی نے کِیا مات مگر |
میں نے اِس ہار کو بھی وقت کا اِنعام لِکھا |
کیوں کرُوں اُن سے بِچھڑنے کا گِلہ اے حسرتؔ |
ساتھ چلنا تھا مُقدّر میں ہی دو گام لِکھا |
رشید حسرتؔ |
معلومات