مسندِ عقیدت سے اُتار دیےجاؤ گے
چُپ رہو! وگرنہ مار دیے جاؤ گے
یہ بستی گُونگوں کی بستی ہے
شور جو مچاؤ گے گاڑ دیے جاؤ گے
یہ کہنا ہے اس دور کے پئمبروں کا
گُذرو گے نہیں تو گُذار دیے جاؤ گے
سُلا کر رکھو اپنے اندھے ضمیر کو
کہ اپنے ہی ضمیر پہ وار دیے جاؤ گے
ان راستوں سے یار جیتنا مُحال ہے
اگر جیت گئے تو ہار دیے جاؤ گے
اس قدر خلُوص بھی اچھا نہیں فیصل
کسی ذرا سی بات پہ جھاڑ دیے جاؤ گے
فیصل ملک

5
296
ہار دیے جاؤگے....؟؟

جی ہار دیے جاؤ گے

0
ان راستوں سے جیتنا محال ہے
اگر جیت گئے تو ہار دیے جاؤگے

درج بالا شعر میں اگر جیت کر بھی ہار جانے کا ذکر ہے تو یہ کہنا کی ہار دیئے جاؤگے میرے لحاظ سے صحیح نہیں ہے کیوں کی انسان یا تو ہار جاتا ہے یا ہرا دیا جاتا ہے ۔اور اگر جیتنے کے بعد اعزاز میں پھولوں کا ہار پہنانے کا ذکر ہے تو اس حال میں مفہوم واضح نہیں ہو رہا۔

یہ مجھ خاکسار کی ادنیٰ سمجھ تھی جس کا اظہار میں نے کیا میں بھی ابھی سیکھنے کے مرحلوں میں ہوں۔

دعا گو
سؔحر


خانم یہاں مُراد یہ ہے کہ کُچھ راہیں ایسی ہوتی ہیں جن سے جیتا نہیں جا سکتا اور اگر انسان جیت بھی جائے منزل حاصل بھی ہو جائے تو بھی مقصود حاصل نہیں ہوتا کہ جیسے آپ کسی کو چاہتے ہو اور اسے جیتنا چاہتے ہو آپ لاکھ جتن سے اُسے جیت لیتے ہو بنا اس کی مرضی کے تو خانم آپ جیتے نہیں ہوتے درحقیقت اس شخص نے آپ کو ہار دیا ہوتا ہے آپ اس کے ہو کر بھی اس کے نہیں یعننی دوسرے الفاظ میں وہ آپ کا ہے مگر آپ اُس کے نہیں ہو سکتے کبھی بھی
شُکریہ

0
@ Dpsaher کی بات سے اتفاق ہے۔ اس شعر پر نظر ثانی فرما دیں ?