| وہ جو کہتا ہے اِسے ایک زمیں کا ٹکڑا |
| گھر کسے کہتے ہیں، معلوم ہی کب ہے اس کو |
| اُس کی سوچوں پہ غمِ نانِ جویں حاوی ہے |
| اُس کا ہر جوش فقط چاہِ بدن میں غرقاب |
| اپنے بچوں کے پسینے پہ رواں اُس کی حیات |
| اُس کی آنکھیں ہیں ابھی تیرہ شبی میں محبوس |
| اور انہیں طارقِ رخشاں کی تمنا ہی نہیں |
| اُس کے افکار پہ ظلمت کی تنی ہے چادر |
| ماہِ نخشب کا طلسم اُس کے لئے کافی ہے |
| کان ہیں اُس کے گرفتارِ زفیرِ دجّال |
| لحن داؤد سے اُس کو نہیں کوئی سروکار |
| نغمہء تارِ الست اُس کے لئے نامانوس |
| اُس کی سانسوں میں کوئی حدتِ جذبات نہیں |
| اُس کے احساس کی رگ صورتِ میت خاموش |
| خاکِ ادراک میں اُس کے نہیں اب کوئی کنی |
| کل کہ وہ خاک تھا، اور آج ہے گویا پتھر |
| اپنی مٹی کے لئے آپ ہے وہ لوحِ مزار |
| .... |
| ہاں مگر صورِ سرافیل ابھی باقی ہے |
| زندگانی کا سفر موت پہ رُکتا ہے کبھی؟ |
| پھر سے پھوٹے گا یہیں چشمہء حیواں اک دن |
| پھر سے ہر رگ میں لہو عشق سے رنگیں ہو گا |
| پھر سے ہر سانس میں احساس کی گرمی ہو گی |
| پھر اذاں پائے گی تاثیرِ نوائے حبشی |
| ہاں! مگر اس کے لئے کان جگانے ہوں گے |
| اور طارق کی طرح بیڑے جلانے ہوں گے |
| طارقِ چرخ سے پھر روشنی لینی ہو گی |
| عزم کو رسنِ وجودی سے نکلنا ہو گا |
| بدر میں پھر سے فرشتوں کے پرے اتریں گے |
| اور ’’اعلون‘‘ کا اعزاز ملے گا پھر سے |
| پھر بنے گی یہ زمیں عرشِ بریں کا ٹکڑا |
| ہاں! اُسے جسم نہیں روحِ یقیں چاہئے ہے |
| وہ جو کہتا ہے اِسے ایک زمیں کا ٹکڑا |
معلومات