Circle Image

سلیم جمال

@saleemjamal

شوقِ جنوں میں خسارہ ہم سارا کر کے
اب بیٹھے ہیں خود کو بیچارہ کر کے
وہ ہی درد و فغاں وہی اشکوں کا سیلاب
دیکھ لیا وہی عشق جی دوبارہ کر کے
ہم نے تو اپنا درد و غم بانٹا تھا فقط
اُس نے کر دیا واپس دوبالا کر کے

0
5
عشق کی مضطر راہوں کا اِک لمحۂ سوگوار ہوں میں
زخموں کو جو سی نہ سکے ایسا بندۂ لاچار ہوں میں
پلاتا ہوں خونِ جگر اِس دلِ نشاد کو میں اپنا
دردِ غیر فانی کا اپنے آپ ہی پالن ہار ہوں میں
کیسی آگِ ببولا لگ گئی ہے یہ میرے سینے میں
بہرِ خُدا کچھ تو کیجئے گا بہت ہی بے قرار ہوں میں

0
11
شہرِ یار سے ہمیں شہر بدر کر دیا
خشبوئے جاں سبز موسم بے مہر کر دیا
شانِ خسروانہ سے جی رہے تھے اب تلک
عشقِ بت نے ہم کو رسوائے دہر کر دیا
بادۂ فسوں کا ہم نے یہ کیا ہے بندوبست
اشکوں میں ملا کے درد اِس کو خَمر کر دیا

0
4
شب غمِ ہجراں کی ڈھلتی نہیں
جلتی ہے شمع پگھلتی نہیں
میں جس کشتی کا ہوں سالک
اُس کی کوئی منزل ہی نہیں
مدت سے ہے خود کی تلاشں
خیر خبر کچھ ملتی نہیں

17
نا کوئی چارہ گر نا کوئی صاحبِ نظر اپنا
کامراں کیسے ہو عشقِ جنوں کا یہ سفر اپنا
قطرہ قطرہ نہ بھر یہ چشمۂ غمِ دل اے زیست
تُو یک بار اُتار دے لہو میں یہ زہر اپنا
اِتنا بھی نہ ڈرا اے واعظ موت سے ہم کو
آ ہی نہ جائے کہیں سُن سُن کے یہ ذِکر اپنا

13
شاید میں بھی اِس بے مہر زمانے کو موافق ہوتا
گر یہ دل میرا اِک اعلیٰ درجے کا منافق ہوتا
عشق نا ہوتا تو کچھ بھی نا ہوتا بس خالق ہوتا
سجدے سے کرتا نا انکار ابلیس اگر عاشق ہوتا

0
11
بحرِ الم کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا
دامِ بھنور میں کوئی سہارا نظر نہیں آتا
جو گُم ہو گیا گوشۂ شہرِ خموشاں میں اِک بار
لاکھ پکارو بھی تو وہ دوبارہ نظر نہیں آتا
ظلمتِ شب کو مرا جو زوال سمجھ بیٹھے ہیں
چڑھتا ہے سورج تو اِک تارا نظر نہیں آتا

0
21
عشق ہو اور آہ و فغاں نا ہو؟
یعنی کہ دل تو ہو پر جاں نا ہو
خاک بسر ہی پھرے عاشق گر
کاتبِ قسمت مہرباں نا ہو
چاہا بہت پر روبرو جاناں
حالتِ دلِ سوزاں بیاں نا ہو

0
32
ساری ساری رات یہ رازِ نہاں بھی ہم کو جگاتا ہے
زندگی کا یہ دشوار رستہ کس منزلِ نو کو جاتا ہے
اپنی پہچاں کی خاطر ہے بنایا اُس نے یہ کون و مکاں
جلا کے دل میں ہمارے شعلۂ دید وہ خود کو چھپاتا ہے

0
10
ہم نے تو تمہیں زندگی جانا
تم نے مگر ہمیں رسمی جانا
آسانی سے جو مل گئے تھے ہم
یوں ہی نہیں معمولی جانا
تیری یاد میں بڑھ گئی ڈاڑھی
دنیا نے ہمیں متقی جانا

0
15
دفعتاً در پہ ہمارے دستک جب موت دے رہی ہو گی
بھاگتے بھاگتے تھکی ہاری تو یہ زندگی بھی ہو گی
دلیلِ مُحکم کیا دو گے اپنی بے گناہی کی یومِ نشُوُر
بولو گے کیسے جب مُنہ پہ مُہر بند لگ گئی ہو گی

2
38
دل میرا غموں کا آشیاں بن گیا ہے
بن تیرے جہاں شبِ زنداں بن گیا ہے
دمِ نزع کی سختی جانے ہم کب جانے
غمِ ہجراں ہی وبالِ جاں بن گیا ہے

18
دریائے غمِ ہستی میں بے سمت ہی بہنا
کُوچہ بہ کُوچہ بھٹکنا کھویا کھویا سا رہنا
لذتِ دردِ محبت کے بنا اِس دنیا میں
کیا کھونا کیا پانا کیا جینا کیا مرنا
اِک یہ بھی دردِ مسلسل رہتا ہے اب تو ہر دم
بچھڑے پیاروں کا خوابوں میں آ کے بچھڑنا

5
83
ہم نے اپنا یہ کیا حال بنا رکھا ہے
آتشِ نفرت سے دل کو جلا رکھا ہے
دنیا چاند ستاروں سے آگے کی سوچ رہی
ہم نے تفرقوں میں خود کو پھنسا رکھا ہے
توڑ رہے کافر بھی انا کا بُت اور ہم نے
بُت پندار کلیجے سے لگا رکھا ہے

25
ہونٹوں پہ ہنسی میرے اب آتی نہیں
شبِ غم جو ٹھہر جائے تو جاتی نہیں
تلخئ گفتار پہ دھیاں ہے سب کا
چشمِ ابر کسی کو بھی نظر آتی نہیں
افکار و عقائد میں ہو سکتا ہے تضاد
رنجش کسی سے میری کوئی ذاتی نہیں

0
22
وقت آیا ہے کٹھن تو یہ کٹ بھی جائے گا
لوٹ کے موسمِ فصلِ بہاراں پھر آئے گا
نغمۂ بلبل گونجے گا جو بہ جو گلشن گلشن
گل و غنچوں پہ تتلی و بھنورا منڈلائے گا
چھٹ جائے گا اُداسیوں کا یہ سایۂ غمِ
یہ دل شمعِ محبت پھر سے جلائے گا

26
شبِ غم کا یہ چاند آج کہاں سے آ نکلا
میرا دل شاید تیری یاد میں جا نکلا
چھپا رکھا تھا یہ دردِ ستم سینے میں مگر
میرا آنسو بھی تیری طرح بے وفا نکلا
میں سمجھتا تھا کہ میں ہی غم کا مارا ہوں مگر
جس کو بھی دیکھا وہ درد کا اِک دریا نکلا

0
32
آگ سے کھیلنا مشغلہ اُس کا پرانا تھا
شوق ہمارا بھی عشق میں جل جانا تھا
کچھ یوں ہوئے ہم دونوں محبت میں رسوا
کو بہ کو لب پہ ہمارا ہی افسانہ تھا
بولا تھا یہ کسی نے کہ کر دے گا فنا عشق
کہنے کو تو وہ مجذُوب اِک دیوانہ تھا

33
دنیا کانٹوں کا بچھونا ہے
تا عمر اِسی پہ ہی سونا ہے
یہ زمانہ کھیل ایسے کھیلے
جیسے دل میرا کھلونا ہے
جو چلا گیا چھڑا کے دامن
کیوں اُس کی یاد میں رونا ہے

0
21
شبِ تنہائی میں ہم کو یہ کیا کیا یاد آیا
گزرے ماہ و سال کا ہر لمحۂ یاد آیا
نہر کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈبو کر
یاروں کے سنگ بے فکری کا وہ قَہ قَہ یاد آیا
آنکھوں کے رستے بھیجا تھا جس نے پیامِ محبت
چاندنی شب میں وہ مہتابی چہرہ یاد آیا

0
21
حُسن و جمال پہ تیرے زمانہ مرتا ہے
درشن کو شب بھر مہتاب ترستا ہے
دیکھ کے تیری جھیل آنکھوں کا گُلابی خُمار
رُخِ خورشید حسد میں دن بھر جلتا ہے
ہے سر سبز وجود سے تیرے فصلِ شباب
سانسوں کی خوشبو سے گلشنِ دہر مہکتا ہے

0
29
افسانۂ بے نام کو کوئی نام ملے
قصۂ غمِ دل کو کوئی انجام ملے
پیاسے ہی لوٹ آئے محفل سے تری
جتنے بھی ملے جام تہی جام ملے
تُو ہی رکھ لے میری محبت کا بھرم
دنیا سے تو بس طنز و دشنام ملے

0
19
آؤ سو بسم اللہ آ کے پھر اِس دل پہ وار کیجئے
گر خنجر نہ ملے تو نوکِ زباں سے ہی تار تار کیجئے
اِک مدت کے بعد آئی ہے میرے لبوں پہ خشک ہنسی
پھر سے کہا ہے آج کسی نے کہ میرا اعتبار کیجئے
ہر کوئی تو ہے ہم دوش کھڑا رقیبِ جاں کے میرے
کوئی ایک تو بہرِ خُدا میرا بھی طرفدار کیجئے

0
26
پیار بِنا دنیا میں گزارا ہو سکتا نہیں
نفرت سے دل روشن آرا ہو سکتا نہیں
میری خطاؤں پہ ہو کیونکر اِتنا برہم
اِنسان و نِسیان جُدا ہو سکتا نہیں
کچھ تو ملے گا مجھ کو مری چاہت کا صلہ
دلِ بے مہر تو میرا خُدا ہو سکتا نہیں

0
16
سہ لیتے ہم تیری جدائی
مار گئی تیری کَج اَدائی
دفن تھا دل میں خزانہ کوئی
جو مل نا سکی ہم کو رسائی
اے چارہ گر دیکھ لی غم میں
جھوٹی تری اِعجاز نُمائی

0
17
یہ دنیا دیکھی، دنیا کے سارے ڈھنگ دیکھے
سینہ کشادہ اور دل لوگوں کے تنگ دیکھے
سرِ بزم دل منافق اپنے ہی سنگ دیکھے
میں نے چھپے ہوئے کچھ یاروں کے ڈنگ دیکھے
فاقوں سے خوبصورت چہرے بے رنگ دیکھے
غربت سے لڑتے دست و پا محوِ جنگ دیکھے

0
38
تیری فِطرت میں ہے گر جو حکومت کرنا
میری جِبِلت میں بھی ہے عزمِ بغاوت کرنا
قید میں رکھ کے کرتے ہو مجھ سے وفا کی اُمید
کس سے سیکھا ہے تم نے یہ محبت کرنا
وقتِ جدائی کے لمحوں کا دکھ بَھلا تم کیا جانو
مشکل ہوتا ہے کسی اپنے کو رُخصت کرنا

0
20
جتنا بھی جی لو لگتا ہے کہ کم ہے جیا
زندگی کا یہ لمبا سفر لمحوں میں طے کیا
میرے خمیر میں گوندھا تھا اِک پنچھی آزاد
زندہ رہنے کی شرطوں نے اِسے مار دیا
جب کبھی بھی گرداشِ ایام نے گھیرا مجھے
اپنے پرائے کو میں نے ہے پہچان لیا

0
39
دردِ دروں میرے دلِ ناتواں کو ہے بیمار کر گیا
سوزِ جنوں میری اِس زندگی کو ہے پُر خار کر گیا
جس کفِ چارہ گر پہ رہا ہر دم آنکھ بند بھروسہ مجھے
وہ اِک زہر بھرا دمِ خنجر دل کے ہے پار کر گیا
جس بے مروت کو میں سمجھتا تھا یارِ غم گسار اپنا
وہ میرے جاتے ہوئے زخموں کو گریۂ زار کر گیا

0
23
مال و جاہ و حُسن و ضِیا کچھ بھی نہیں
یہ دنیا دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں
سینۂ مُفلس پہ چلتا ہے عدل کا تیر
صاحبِ زر کے لیے سزا کچھ بھی نہیں
اک پہلے ہی بُھوک گھر بَگھر ناچ رہی
اور کھانے کو غم کے سوا کچھ بھی نہیں

0
34
عاشقوں کی محفل میں بیاں رسمِ عاشقی کے اُصول نا کر
غمِ حسینؑ دل میں نہیں تو دعوائے عشقِ رسُولؐ نا کر
فلسفہ عشقِ حسینؑ سمجھ ، زورِ نیزۂ باطل سے نا ڈر
یزید کی بے گناہی میں کوئی بھی عُذر قبُول نا کر

0
27
اندھے گونگے بہرے قاضی ہو گئے
پاپی سارے پرانے ہادی ہو گئے
نعرۂ حق کیا بُلند جس نے بھی یہاں
وہ شہرِ ستم گر کے باغی ہو گئے
کھا کھا کے عمر بھر رشوت کی روٹی
سارے ہی آج کل وہ حاجی ہو گئے

0
29
تا عمر بھٹکتے رہے ہم دشتِ تمنا میں
جو اِک خواہش نے جنم لیا تو اِک مر گئی ہے
اِک زندگی اور ملے تو کوئی کام کریں گے ہم
یہ تو باتوں خوابوں خیالوں میں ہی گزر گئی ہے

0
27
لہو لہو ہوا مقتلِ شوق پھر اب لہو میں یہ اُبال کیسا
زندگی کے اِس موڑ پے دریائے غم میں یہ اُچھال کیسا
خواب تو تھے ابریشم کی صورت تیرے یہ نرم و نازک
تو پھر اِن کی شکستگی کا تجھ کو ہے اب یہ ملال کیسا
اے شیشہ گُرو جو تم جوڑ سکو نہ میرے اِس ٹوٹے دل کو
تو پھر اپنے دستِ ہنر ور پے تجھے ہے یہ کمال کیسا

27
جو درد چُھپا رکھا تھا دل کے چھالوں میں
وہ عیاں بھی ہوا تو آنکھوں کے پیالوں میں
ایسی ہوئی شبِ تاریک سے فُرقت میں الفت
کہ مری تو آنکھ بھی دکھتی ہے اب اُجالوں میں
فرصت ہی نہ ملی کہ جی لیتا کچھ اپنے لئے
پھنس کر رہ گیا اِس غم ہستی کے جالوں میں

29
دور کسی ہری شاخ پہ جب کوئی کوئل گنگناتی ہے
گمان ہوتا ہے جیسے وہ کوئی نغمۂ عشق سناتی ہے
موسم ہجراں کی اِن سرد سیاہ ٹھٹھرتی راتوں میں
تیری یاد رقصِ بسمل کی طرح بہت تڑپاتی ہے
اِک نا اِک دن تو ہونا ہی ہے رخصت اے بزمِ جہاں
جانے پھر یہ طبعیت میری کیوں گھبراتی ہے

0
23
پیالۂ زہر بھرا دے رہے ہیں
اُنس و وفا کی جَزا دے رہے ہیں
دردِ جگر دے کے ہم کو وہ کافر
بیٹھ کے پاس دوا دے رہے ہیں
جل رہے ہیں جِن انگاروں پر
غم خوار اُن کو ہوا دے رہے ہیں

27
مُجھ سے مت پُوچھو غمِ عاشقی کی رُوداد
نا میں رانجھا ہوں اور نا ہی کوئی فرہاد
اِتنا بھی مان نا کر اپنے رُخِ زیبا پے
کِبر تو تقوی بھی کر دیتا ہے برباد

0
21
دلِ بے قرار آخر کیوں چین نہیں ہے پاتا
طوق غموں کا گلے سے یہ کیوں اُتر نہیں جاتا
میرے عشقِ جنوں میں ہی کوئی کمی رہ گئی جو
مُجھ کو خُدا بھی نظر کعبے میں نہیں ہے آتا

27
ہم جیسے پاگل بھی جگ میں گُھومتے ہیں
ابرِ جنوں تلے لیل و نہار جو جُھومتے ہیں
بارہا یہ چاہا کہ بدل لیں ہم خود کو
خود کو بدلنے کے لئے خود کو ڈھونڈتے ہیں

0
64
ہم نے بھی کیا کیا دکھ درد نہیں ہیں جھیلے
جانے کہاں سے آئے ہیں آنسوؤں کے یہ ریلے
ہنگامہ ہے برپا چاروں اور مرے لیکن
جی رہے ہیں ہم پھر بھی ہر دم اکیلے اکیلے
دورِ جدید کا دیکھو یہ کیسا ہے بے حس دل
اپنے اپنوں سے کھیل محبت کا ہیں کھیلے

0
33
اے صاحبِ مقدُور آخر تُو چاہتا کیا ہے
سَہمے سَہمے زندہ لاشے ڈراتا کیا ہے
ہیں دشمن کھڑے دمِ خنجر لئے سر پہ ہمارے
اپنا ہو کے تُو اپنوں پہ تیر چَلاتا کیا ہے
جب مُفتی و قاضی ہی ہوں شاہوں کے ہم نوا
پھر تُو کُنجِ قفس میں اے ناداں چِلاتا کیا ہے

35
میکدے میں شراب باقی ہے
ابھی میرا شباب باقی ہے
جلا کے رکھ دیا ہے دل میرا
کیا ابھی اور حساب باقی ہے
آج کا دن بھی تھا اُداس اُداس
ابھی شب کا عذاب باقی ہے

60
کسی غرض سے وہ میرے دیار میں آیا
میں سمجھا تھا شاید میرے پیار میں آیا
تب آیا جب یہ دل غم سے ہو گیا پتھر
مگر وہ پھر بھی انا کے خُمار میں آیا
میں نے تھی کھائی قسم تجھ کو بُھول جانے کی
لبوں پہ نام تو شدتِ بُخار میں آیا

62